بیجنگ (عکس آن لائن) چوالیسویں اور پینتالیسویں آسیان سمٹ حال ہی میں لاؤس کے شہر وینٹیانے میں اختتام پذیر ہوئیں ۔ کانفرنس کے دوران منعقدہ ستائیسویں چین- آسیان سربراہ اجلاس میں دونوں فریقوں نے مشترکہ طور پر اعلان کیا کہ چین-آسیان فری ٹریڈ ایریا ورژن 3.0 پر بات چیت حقیقی سطح پر مکمل ہوگئی ہے۔ یہ مشرقی ایشیائی اقتصادی انضمام کو اپ گریڈ کرنے کی سمت میں ایک اہم قدم ہے، جو دونوں فریقوں کے کثیر الجہتی اور آزاد تجارت کی مضبوطی سے حمایت کرنے کے عزم کو اجاگر کرتا ہے۔
کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ 2010 میں دونوں فریقوں کے درمیان آزاد تجارتی زون کے قیام سے لے کر 2019 میں آزاد تجارتی معاہدے کے 2.0 ورژن کے مکمل نفاذ اور پھر آزاد تجارتی زون کے 3.0 ورژن کی تشکیل تک ، چین – آسیان تعاون قدم بہ قدم آگے بڑھا ہے۔
2 ارب سے زائد کی مجموعی آبادی کے ساتھ ، چین اور آسیان کے تعاون سے علاقائی معاشی انضمام کا معیار بلند ہوگا اور عالمی معیشت کی بنیاد زیادہ مستحکم ہوگی۔
آسیان سمٹ کے وقت کچھ آوازیں ضرور اٹھ رہی تھیں ۔ مثال کے طور پر ، کچھ جاپانی سیاست دانوں نے نام نہاد “نیٹو کے ایشیائی ورژن” کا خیال پیش کیا ۔ امریکہ اور فلپائن نے تضادات اور محاذ آرائی کو بھڑکانے کے لیے بحیرہ جنوبی چین کے معاملے کا استعمال کیا ۔ اس پر بڑے پیمانے پر تنقید اور مخالفت کی گئی۔
آسیان سمٹ کے دوران تمام فریقوں نے درجنوں دستاویزات پر دستخط کیے ہیں جن میں آب و ہوا کی تبدیلی سے نمٹنے، سپلائی چین تعاون کو فروغ دینے اور مصنوعی ذہانت کی ترقی جیسے شعبوں کا احاطہ کیا گیا۔ متعلقہ ثمرات نے ایک بار پھر ثابت کیا ہے کہ امن اور ترقی اس خطے کے ممالک کی فوری خواہشات ہیں، اور وہ انتشار پیدا کرنے والوں اور قول و فعل میں تضاد رکھنے والوں کے حامی نہیں ہیں ۔
یہ ثمرات وضح کرتے ہیں کہ اسشتراک اور کھلاپن ہی درست راستہ ہے، اور “نیٹو ماڈل” کے لئے کوئی جگہ نہیں جو سرد جنگ کی ذہنیت اور بلاک تصادم کو فروغ دیتا ہے۔ منفی ہتھکنڈوں کا مقابلہ کرنا، مشترکہ مفادات پر توجہ مرکوز کرنا، اور اختلافات کو مناسب طریقے سے حل کرنا ، چین-آسیان تعاون کے قیمتی تجربات ہیں جو مختلف فریقوں کے لئے ایک مثال فراہم کرتے ہیں ۔