بیجنگ (عکس آن لائن)گزشتہ سال چین کی معیشت نے عالمی اقتصادی ترقی میں امریکہ، یورپ اور جاپان کی مجموعی شراکت سے زیادہ حصہ ڈالا ہے۔ چین دنیا کی ایک چوتھائی خوراک، ایک تہائی گاڑیاں، نصف سے زیادہ اسٹیل اور تقریباً ساٹھ فیصد گھریلو سامان تیار کرتا ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ آئی ایم ایف نے پیش گوئی کی ہے کہ چین اگلے پانچ سالوں میں عالمی اقتصادی ترقی میں سب سے بڑا شراکت دار رہےگا، جس کی شراکت کی شرح 21.7 فیصد تک جا پہنچےگی، جو امریکہ سمیت جی 7 ممالک کی مجموعی شراکت سے زیادہ ہے۔
بدھ کے روز چینی میڈ یا نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ اس قدر اہم چینی معیشت کو صحیح طور پر سمجھنے کے لیے ہمیں ہر سال کے آخر میں منعقد ہونے والی چین کی سینٹرل اکنامک ورک کانفرنس پر توجہ دینا ہوگی کیونکہ موجودہ معاشی صورتحال کا اندازہ لگانے اور آئندہ سال میں میکرو اکنامک پالیسیوں کی سمت متعین کرنے کے سلسلے میں، یہ اجلاس چینی قیادت کی طرف سے تجزیے اور فیصلہ سازی کا سب سے مستند دریچہ ہے۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اس اجلاس کو جان کر ہم درست اندازہ لگا سکتے ہیں کہ چین کا معاشی دیوہیکل جہاز کس سمت جا رہا ہے۔
گزشتہ 40 سالوں میں چین کی تیز رفتار اقتصادی ترقی نے صحیح وقت، ماحول اور بھرپور محنت کے ساتھ ساتھ لچکدار اور عملی پالیسی سے فائدہ اٹھایا ہے. اندرونی بنیادی حالات میں بڑی تبدیلیوں، بیرونی دباؤ اور چیلنجوں اور سائنس و ٹیکنالوجی میں بڑھتی ہوئی مسابقت کے تناظر میں چین کس طرح ترقی کے ایک نئے دور کا آغاز کر سکتا ہے ؟ یہ ایک بڑا امتحان ہے، اور یہ وہ جگہ ہے جہاں بین الاقوامی برادری عالمی معیشت کے ترقیاتی انجن کے طور پر چین کو سب سے زیادہ توجہ دیتی ہے۔
چینی معیشت پر بین الاقوامی برادری کی توجہ کو دیکھتے ہوئے، سینٹرل اکنامک ورک کانفرنس، جو حال ہی میں اختتام پذیر ہوئی، نے کئی اہم سوالات کے واضح جوابات دیئے۔
سب سے پہلے، کیا چین کی معیشت مستحکم ہے؟ اجلاس میں دیا گیا جواب ہاں میں تھا: “مجموعی طور پر چین کا اقتصادی آپریشن مستحکم اور ترقیاتی رجحان برقرار ہے، چینی معیشت کی بنیاد مستحکم ہے، بہت سی خوبیاں بنیادی عوامل ہیں، مضبوط لچک اور عظیم صلاحیت ہے، اور طویل مدتی مثبت حالات اور بنیادی رجحانات تبدیل نہیں ہوئے ہیں”. توقع کی جاتی ہے کہ پالیسی اسپورٹ کے ساتھ چینی معیشت اگلے سال جی ڈی پی کی شرح نمو 4 سے 5 فیصد تک برقرار رکھے گی اور عالمی نقطہ نظر سے چین اب بھی ایک بڑی اعلیٰ شرح نمو والی معیشت ہے۔
دوسرا سوال، دباؤ اور چیلنجوں کا سامنا کرتے ہوئے، چین کی میکرو پالیسیوں کو کس طرح ایڈجسٹ کیا جائے؟ کچھ تجزیہ کاروں نے نشاندہی کی کہ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ اگلے سال چینی معیشت کے لئے اولین کلیدی کام کے طور پر “کھپت کو بھرپور طریقے سے فروغ دیا جائےگا، سرمایہ کاری کی کارکردگی کو بہتر بنایا جائے گا، اور گھریلو طلب کو ہمہ گیر طور پر بڑھایا جائے گا”، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین نے اس سے قبل اگرچہ سپلائی سائیڈ اور صنعتی سرمایہ کاری پر زیادہ توجہ مرکوز کی ہے ،لیکن اب چین کھپت کو فروغ دینے پر زیادہ توجہ مرکوز کر رہا ہے تاکہ معاشی استحکام کی حمایت کی جا سکے ۔اس کے ساتھ ساتھ چین کی معاشی ترقی کا ماڈل بھی قرض اور سرمایہ کاری پر مبنی ماڈل سے سائنسی اور تکنیکی جدت طرازی اور کھپت پر مبنی ماڈل میں تبدیل ہو رہا ہے تاکہ سپلائی کو بہتر طریقے سے چلایا جا سکے اور اعلیٰ معیار کی ترقی حاصل کی جا سکے.
تیسرا،گھریلو طلب کو بڑھانے پر زیادہ توجہ مرکوز کرتے ہوئے ، کیا چین کھلے پن کے عمل کو جاری رکھے گا یا پیچھے ہٹ جائےگا؟ جواب واضح ہے: کھلے پن کو زیادہ تقویت میسر ہوگی ! اجلاس میں آئندہ سال اعلیٰ سطحی کھلے پن کو وسعت دینے، غیر ملکی تجارت اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو مستحکم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔مزید یہ کہ چین ایک منظم انداز میں آزاد اور یکطرفہ اوپننگ اپ کو وسعت دےگا، اور ادارہ جاتی بنیاد پر کھلے پن کو مسلسل وسعت دیتا رہےگا۔
اس حوالے سے چائنا یونیورسٹی آف انٹرنیشنل بزنس اینڈ اکنامکس کے انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل اکنامکس کے ڈین سانگ بائی چھوان نے نشاندہی کی کہ عام طور پر باہمی سمجھوتے پر مبنی دو طرفہ کھلا پن، بیرونی ممالک کے لیے کھلے پن کی ایک اہم بنیاد ہے، لیکن تجارتی تحفظ پسندی اور یکطرفہ پسندی کے اثرات کے تحت سمجھوتے پر مبنی کھلے پن کو درپیش مشکلات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس لیے چین نے اپنے یکطرفہ اور آزادانہ کھلے پن کو تیز کرنے کے لیے پہل کی ہے۔ یہاں تک کہ اگر دوسرا ملک باہمی کھلے پن پر عمل نہیں کرتا ہے یا یہاں تک کہ تجارتی تحفظ پسندی پر عمل پیرا ہوتا ہے، تب بھی چین کا قدم نہیں رکےگا تاکہ غیر ملکی تجارت اور اقتصادی تعاون کی ترقی کے لیے سازگار بیرونی ماحول اور ادارہ جاتی حالات پیدا کیے جا سکیں اور دوسرے ممالک کے لیے تجارت اور سرمایہ کاری تعاون کے مزید مواقع پیدا کیے جا سکیں، تاکہ وہ چینی مارکیٹ کے مواقع کا اشتراک کر سکیں اور چینی مارکیٹ کی ترقی میں حصہ لے سکیں۔
آئیے بین الاقوامی برادری کے رد عمل پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ کئی بین الاقوامی شخصیات نے کہا ہے کہ گزشتہ ایک سال میں چین کی معاشی کامیابیاں کوئی آسان کام نہیں ہے، جس میں چینی معیشت کی مضبوط لچک اور صلاحیت کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔ چین کی جانب سے ہمہ جہت طریقے سے اصلاحات کو مزید گہرا کرنے، اعلیٰ سطحی کھلے پن کو وسعت دینے اور پائیدار معاشی بحالی کو فروغ دینے سے عالمی اقتصادی نمو میں مزید استحکام آئے گا اور عالمی مشترکہ ترقی کو مزید تقویت ملے گی۔ چین میں اقوام متحدہ کے ترقیاتی نظام کے ریزیڈنٹ کوآرڈینیٹر سدھارتھ چٹرجی نے کہا، “چین کی اقتصادی ترقی کی بنیاد بہت مضبوط ہے، اور مجھے چین کی ترقی کی صلاحیت پر پورا اعتماد ہے”۔ انڈونیشیا کی ڈیریالکلا یونیورسٹی آف فلاسفی کے اسکالر کلاؤس ہینرک راڈیٹیو نے کہا کہ “مجھے ہمیشہ چینی معیشت کے مستقبل پر اعتماد رہا ہے۔ کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کی مضبوط قیادت اور چینی عوام کی سخت محنت کے تحت چین کی معیشت میں تیزی آئے گی اور مستحکم ترقی کا حصول جاری رہے گا۔ “