بیجنگ (عکس آن لائن) جب سفر کی بات آتی ہے تو بہت کم لوگ ایسے ہوں گے جو کہیں گے کہ انہیں سفر ناپسند ہے۔ لوگوں کے نزدیک، خوبصورت پہاڑوں اور دریاؤں، قدرتی اور تاریخی مقامات وغیرہ سے لطف اندوز ہونا، دماغ کو پرسکون کر سکتا ہے، خیالات کے افق کو وسیع کر سکتا ہے، علم میں اضافہ کر سکتا ہے، اور مزید دوست بنا سکتا ہے۔ سیاحت طویل عرصے سے لوگوں کی تفریح اور سکون کا ایک اہم طریقہ بن چکی ہے۔ ایک ملک کے لیے سیاحت کی ترقی کا مطلب روزگار کے بے شمار مواقع اور سیاحت کی مد میں بھرپور آمدنی کا حصول بھی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ مختلف ممالک کی حکومتیں سیاحت کی ترقی کو بہت اہمیت دیتی ہیں۔ 1979 میں، عالمی سیاحتی تنظیم نے ہر سال 27 ستمبر کو “سیاحت کا بین الاقوامی دن” قرار دیا تھا ۔ اس کا مقصد سیاحت کی ترقی کو فروغ دینا اور ثقافت و فنون لطیفہ اور معیشت کے شعبوں میں مختلف ممالک کے درمیان تبادلوں کو بڑھانا ہے۔
مجھے بھی سیاحت بہت پسند ہے۔ مجھے 1980 کی دہائی کے اواخر اور 2000 کے اوائل میں حصول تعلیم اور روزگار کے سلسلے میں پاکستان میں تقریباً 7 سال قیام کا موقع ملا ۔
دارالحکومت اسلام آباد، عالمی ثقافتی ورثہ کی فہرست میں شامل قلعہ لاہور اور قلعہ روہتاس ، اس کے علاوہ بادشاہی مسجد ، اور مزار قائد سمیت بے شمار پرکشش مقامات سیاحوں کی دلچسپی کا سامان لیے ہوئے ہیں ، میری بھی ان مقامات سے گہری یادیں وابستہ ہیں ۔ خاص طور پر گلگت بلتستان کی وادی ہنزہ ،چین پاکستان خنجراب پاس سے 240 کلومیٹر دور واقع ہے ۔ سحر انگیز وادی ہنزہ قراقرم ہائی وے یعنی چائنا پاکستان فرینڈ شپ روڈ کے 1986 میں کھلنے کے بعد بیرونی دنیا کے سامنے پہلی مرتبہ باضابطہ نمودار ہوئی۔ ہنزہ کے وسط میں واقع قصبہ دنیا کا واحد گاؤں ہے جہاں سے آپ سطح سمندر سے 7000 میٹر بلند پانچ برف پوش پہاڑوں کو دیکھ سکتے ہیں ۔
برف پوش چوٹیاں، ہزار سالہ قدیم قلعہ، شاندار گلیشیئرز، پہاڑوں پر تہہ در تہہ کھیت اور خوبانی کے درختوں کے ساتھ ساتھ مقامی لوگوں کی پرسکون زندگی، یہ سب آپ کو احساس دلاتے ہیں کہ موجودہ ہنگامہ خیز دنیا میں ایک جگہ ایسی بھی ہے جہاں حقیقی طور پر ایک “جنت” کا گمان ہوتا ہے۔ تاریخی اعتبار سے وادی ہنزہ اور چین کا بھی قدیم تعلق ہے۔وادی ہنزہ کے بلتت قلعے پر موجود ریکارڈ کے مطابق ” 1889 اور 1891 کے درمیان برطانوی فوج نے وادی ہنزہ پر حملہ کیا تو شہزادہ صفدہ خان کئی ہزار لوگوں کے ہمراہ سنکیانگ چلے گئے۔” لہذا یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ جب مقامی پہاڑی لوگ چینی سیاحوں کو دیکھتے ہیں، تو کہتے ہیں، 200 سال پہلے، ہم ایک خاندان تھے، اور اب بھی ہم بھائی بھائی ہیں۔
چین میں بھی بے شمار ناقابل فراموش قدرتی مقامات ہیں ۔ اس کے علاوہ انتہائی قابل تعریف اور حیرت انگیز عالمی ثقافتی ورثے، منفرد عجائب گھر اور لائبریری وغیرہ موجود ہیں۔ آپ عید الاضحی جیسے روایتی تہواروں سے بھی لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ اگر آپ بیجنگ آتے ہیں تو میں یہاں آپ کا انتظار کر رہی ہوں۔ آئیے ہم ایک ساتھ مل کر عظیم دیوار چین کی سیر کریں،شہر ممنوعہ کا دورہ کریں، سمر پیلس اور ٹیمپل آف ہیون پارک میں شاہی باغات کی رونقوں سے لطف اٹھائیں۔ ہم اولمپک پارک میں بھی گھوم پھر سکتے ہیں۔ آپ کو پیکنگ اوپیرا دکھا سکتے ہیں اور چینی روایتی ثقافت سے محظوظ کر وا سکتے ہیں ۔ اس دوران ہم چائنیز کھانوں کا مزہ چکھنے کے لیے بھی جا سکتے ہیں۔ یقیناً اس سفر کے دوران آپ چین کے بارے میں بہتر انداز سے بہت کچھ جان سکیں گے۔ لہذا، اگر آپ کسی ملک اور وہاں کی ثقافت کو جاننا چاہتے ہیں، اور باہمی تبادلے اور دوستی کو بڑھانا چاہتے ہیں، تو سیاحت واقعی ایک اچھا انتخاب ہے۔
سیاحت مختلف ممالک کے درمیان افرادی و ثقافتی تبادلوں کو فروغ دیتی ہے اور سماجی، اقتصادی اور ثقافتی ترقی کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔پھر آئیے ہم اکٹھے ایک بار پھر سیاحت کی بہار کا انتظار کریں، تاکہ مختلف خطوں کے لوگ ایک دوسرے کو سمجھ سکیں اور باہمی لگاو اور ثقافتی پہچان کو بڑھا سکیں۔