ڈوان وو فیسٹیول کو ڈریگن بوٹ فیسٹیول کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، یہ چین کے چار اہم روایتی تہواروں میں سے ایک ہے ۔اس کی اہمیت اور حیثیت جشن بہار ، وسط خزاں کے تہوار اور چھنگ منگ جیسی ہے۔ آج سے 2,000 سال قبل ایک محب وطن شاعر چھو یوآن کی یاد میں ڈوان وو فیسٹیول کا آغاز کیا گیا تھا۔ تہوار کے دوران چینی لوگ لیس دارچاولوں سے بنایا گیا مخصوص پکوان زون زی کھاتے ہیں، ڈریگن بوٹس کے مقابلوں سے لطف اٹھاتے ہیں، چھو یوآن کے حب الوطنی کے جذبے کی یاد مناتے ہیں اور روایتی چینی ثقافت کو فروغ دینے کے لیے مختلف سرگرمیاں منعقد کرتے ہیں۔
میرے لیے، زون زی کھاتے وقت، سرخ عناب کی مٹھاس اور سرکنڈے کے پتوں کی انوکھی خوشبو میں بسے ہوئے نرم لیس دار چاولوں سے لطف اندوز ہونا بے حد پر لطف ہے اور یہ ذائقہ میرے بچپن کے گرم ذائقے اور خوشگوار یادیں تازہ کرتا ہے۔ اس سال کے ڈوان وو فیسٹیول میں بھی چینی لوگ لیس دارچاول سے بنا زون زی کھا رہے ہیں اور ڈریگن بوٹس کے پر جوش مقابلے دیکھ رہے ہیں لیکن میرا دل ملے جلے کچھ پیچیدہ سے ذائقوں سے بھرا ہوا ہے، جسے بیان کرنا مشکل ہے۔
پیچیدہ احساسات کی بات کرتے ہوئے، سب سے پہلے طمانیت ہے: یکم جون کو یوم اطفال کے آغاز پر ، کووڈ ۱۹ کی وبا کی وجہ سے دو ماہ سے لاک ڈاؤن میں رہنے والے ،چین کے شہر شنگھائی سے پابندیاں اٹھا لی گئیں! شنگھائی خوشی اور جوش سے ابل رہا ہے اور چینی لوگوں کے دلوں پر چھائے تمام سیاہ بادل بھی چھٹ گئے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کے ذریعے ہم نے دیکھا کہ کسی وقت میں خالی اور بے دم نظر آنے والی سڑکوں پر زندگی دوڑ رہی ہے ، یہاں ایک بار پھر سے ٹریفک رواں دواں ہے اور لوگ طویل عرصے سے دبے ہوئے جذبات کادل کھول کر اظہار کر رہے ہیں ۔ شنگھائی کے کئی حصوں میں تو علی الصبح دو بجے بھی ٹریفک جام تھالیکن شنگھائی والوں کے لیے یہ ٹریفک جام خوش آئند ہے۔
چینی لوگوں کی شنگھائی کے لیے خوش ہونے کی وجہ یہ ہے کہ شنگھائی چین کا معاشی، مالیاتی اور تجارتی مرکز ہے۔وبا کی وجہ سے شہر بھر میں نافذ لاک ڈاؤن کے باعث شنگھائی اور پورے چین کی معیشت کوبہت زیادہ مشکلات اور دباؤ کا سامنا کرنا پڑا ؛ دو ماہ تک گھروں میں محدود رہنے کے بعد ، ہر ایک شخص کو بھاری ذہنی و جسمانی دباؤ کا سامنا کرنا پڑا ۔ چینی معیشت کے لیے شنگھائی کی وبا جو مشکلات لائی ہے وہ 2020 میں ووہان شہر کی وبا سے بھی زیادہ سنگین ہیں۔ تاہم، چینی حکومت لوگوں کی زندگی اور جانوں کو اولین ترجیح دینے کے تصور پر قائم ہے اور ڈائنامک زیرو پالیسی کو نافذ کرتی چلی آ رہی ہے۔ آخرِ کار اومیکرون چین کی انسداد وبا کی مضبوط ڈھال کو توڑنے میں ناکام رہا۔ شنگھائی جیت گیا، چین جیت گیا، اور مشکل ترین وقت گزر گیا۔ تاریخ ثابت کرے گی کہ چین کی انسداد وبا کی پالیسی درست اور سائنسی ہے! خوشی! طمانیت !
پیچیدہ احساسات کی بات کریں ، تو ایک احساس “دکھ “بھی ہے: یکم جون کو جنوب مغربی چین کے صوبہ سیچھوان کے شہر یاآن میں 6.1 شدت کا زلزلہ آیا، جس سے جانی و مالی نقصان ہوا؛ ادھر امریکہ کی میموریل ڈے کی تین دن کی تعطیلات کے دوران ملک بھر میں فائرنگ کے 300 سے زائد واقعات رونما ہوئے جس کے نتیجے میں 130 سے زیادہ اموات ہوئیں؛ یورپ میں ہزاروں لوگ روس یوکرین تنازع کی آگ کی زد میں گر گئے . لمحہ لمحہ زندگی ہے، اور ایک نازک زندگی کا سامنا کرتے ہوئے ، ہم صرف اور صرف “چپ ہی رہ سکتے ہیں، قبروں سے بھی زیادہ چپ ، بس اسی کا انتخاب کر سکتے ہیں۔ ”
پیچیدہ احساسات کی بات کرتے ہوئے تو غصے کا احساس بھی ہے: یکم جون کو، ایک امریکی سینیٹر نے تائیوان کا اپنا دورہ ختم کیا۔ کچھ عرصے سے، امریکی سینیٹرز نے یکے بعد دیگرے تائیوان کا دورہ کرکے تائیوان میں علیحدگی پسند قوتوں کو غلط اشارہ دیا جس سے آبنائے تائیوان کے دونوں کناروں کے تعلقات مزید کشیدہ ہو گئے. ایک چینی ہونے کے ناطے، یقیناً، ہم ناراض ہیں، کیونکہ تائیوان چین کی سرزمین کا ایک ناقابل تنسیخ حصہ ہے اور امریکہ نے “تائیوان سے فائدہ اٹھا کر چین کو کنٹرول میں لینے” کے لئے طویل عرصے سے چین کے اندرونی معاملات میں نہایت نامناسب مداخلت کی ہے۔ جیسا کہ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ چین کے بنیادی مفادات جیسے اقتدار اعلی اور علاقائی سالمیت سے متعلق معاملات پر چین کے پاس سمجھوتے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ قومی اقتدار اعلی اور علاقائی سالمیت کے دفاع کے لیے چینی عوام کے مضبوط عزم، پختہ ارادے اور مضبوط صلاحیت کو کسی کو کم نہیں سمجھنا چاہیے اور 1.4 بلین چینی عوام کے خلاف کھڑے نہیں ہونا چاہیے۔
پیچیدہ احساسات کی بات کرتے ہوئے ، خدشات بھی ہیں: تقریباً تین سال کی وبا نے لوگوں کو دنیا اور زندگی کے عدم استحکام کے بارے میں مزید با شعور کر دیا ہے، اور وہ احساسِ تحفظ کے حوالے سے زیادہ حساس ہو گئے ہیں ۔
جنگیں، وبائیں ، قدرتی آفات، اور انسان کی اپنی کوتاہیوں کے باعث سامنے آنے والی آفات ، لوگوں کے نفسیاتی دفاع کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہی ہیں: اس دنیا کو کیا ہوگیا ہے ؟ اس دنیا کا کیا ہوگا ؟ کیا آنے والا کل بہتر ہوگا؟ سچ پوچھیں تو میں پر امید نہیں ہوں اور میں مصنوعی مسکراہٹ کے ساتھ مجبوراً یہ نہیں کہوں گا کہ آنے والا کل بہتر ہو گا، ہاں لیکن مجھے یہ یقین ہے کہ انسان آسانی سے ہارے گا نہیں۔ ہمیشہ ایسے مضبوط لوگ ہوتے ہیں جو دباؤ کا سامنا کرتے ہوئے خطرے اور تباہی کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں اور بنی نوع انسان کے لیے ایک روشن مستقبل اور بہتر دنیا بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔