اسلام آباد ہائی کورٹ

پولینڈ کی دو بیویوں کی پاکستانی شوہر سے بچوں کی حوالگی کیس ، ہائی کورٹ کا دونوں بچوں کو ماؤں کے حوالہ کرنے اورای سی ایل سے نام نکالنے کا حکم

اسلام آباد (عکس آن لائن)اسلام آباد ہائیکورٹ نے پولینڈ کی دو بیویوں کی پاکستانی شوہر سے بچوں کی حوالگی کے کیس میں دونوں بچوں کو ماؤں کے حوالہ کرتے ہوئے ای سی ایل سے نام نکالنے کا حکم دیدیا۔بدھ کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے پاکستانی شوہر سے پولش بچوں کی حوالگی کے کیس میں دونوں بچوں کو ماؤں کے حوالے کرنے سے متعلق کیس کی سماعت کی۔سماعت کے دوران دونوں بچے اپنی ماؤں اور پولینڈ ایمبیسی حکام کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئے ۔اس موقع پر بچوں کے والد، وکلاء ، ایڈیشنل اٹارنی جنرل، اسسٹنٹ اٹارنی جنرل بھی عدالت میں پیش ہوئے۔عدالت نے استفسار کیاکہ کیا ایف آئی اے نے پاسپورٹ اپنے قبضے میں لے لئے ہیں؟جس پرایف آئی اے حکام نے بتایاکہ جی پاسپورٹ قبضے میں لے لئے ہیں،

دوران سماعت بچوں کی والدہ کے وکیل بیرسٹر عقیل ملک نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ ہماری استدعا ہے کہ عدالت بچوں کا انٹرویو چیمبر میں کر لے، بچوں کا والد چھٹیاں گزارنے کیلئے بچوں کو پاکستان لے کر آیا لیکن واپس نہیں گیا، بچوں کے والد نے انہیں غیرقانونی طور پر 14 ماہ تک اغواء کئے رکھا،بچوں کو 14 ماہ تک انکی ماؤں کی محبت سے محروم رکھا گیا، بچوں کی ماؤں نے نہ صرف پولینڈ بلکہ پاکستان میں بھی تمام متعلقہ حکام سے رابطہ کیا،دونوں بچے پولینڈ کے شہری ہیں، پاکستانی فیملی کورٹ کسٹڈی سے متعلق فیصلہ نہیں کر سکتی۔وکیل نے جسٹس خواجہ شریف کے2010ء فیصلہ کاحوالہ دیتے ہوئے کہاکہ اسی طرح کے کیس میں پولش بچے واپس بھیجے گئے، پاکستان کی فیملی کورٹس کم عمر بچے ماؤں کے حوالہ کرتی ہیں،

استدعا ہے کہ بچوں کو ان کی ماؤں کے حوالہ کردیاجائے،اس موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل منوراقبال دوگل قانونی نکات سے متعلق عدالت کو آگاہ کیا،دوران سماعت جسٹس محسن اخترکیانی نے دونوں بچوں کو روسٹرم پر بلا لیا اور اپنے پاس کھڑا کرلیاتھوڑی دیر ان سے بات کی اور دونوں بچوں کو لے کر چیمبر میں چلے گئے،جہاں بچوں کا انٹرویو لیا، اس دوران کمرہ عدالت موجود بچوں کی مائیں آبدیدہ ہوگئیں اور ایک والدہ کی طبیعت خراب ہونے پر اسے کرسی پر بٹھا کر پانی پلایاگیا،چیمبر سے واپسی پر بچے اپنی ماؤں کے پاس چلے گئے اور سماعت پھر شروع ہونے پر عدالت نے استفسار کیاکہ کیا بچی کی والدہ نے نکاح سے پہلے اسلام قبول کیا جس پر پولش خاتون نے اپنے وکیل کے ذریعے بتایا کہ میں نے 2005 میں نکاح کیا تاہم اسلام قبول نہیں کیا،

عدالت نے دوسری خاتون سے استفسار کیاکہ کیا آپ کا سلیم کے ساتھ شادی تھی؟،جس پر خاتون نے بتایاکہ میرا سلیم کے ساتھ نکاح نہیں تھا نہ اسلام قبول کیا، عدالت نے استفسار کیاکہ کیا بچے پولینڈ کے سکول میں پڑھ رہے تھے؟، جس پر خاتون نے بتایاکہ بچے پولینڈ کے سکول میں پڑھ رہے تھے، عدالت نے استفسار کیاکہ کیا بچے پاکستان میں بھی پڑھ رہے ہیں؟، جس پروکیل نے بتایاکہ جی بچے گلریز میں اقرار چلڈرن سکول گلریز سکیم راولپنڈی میں پڑھ رہے ہیں، شوہر سلیم کے وکیل نے کہاکہ سات سے زیادہ عمر کے بچوں سے عدالت رائے لے سکتی ہے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ عدالت نے دیکھنا ہے کہ آخری دفعہ بچے کس کے پاس تھے،

ماں یا باپ جو بھی قانونی گارڈین ہے عدالت ان متعلق فیصلہ کردے،میرے خیال میں چھ سال کے بچوں کا مذہب کیسے تبدیل کرایا جا سکتا ہے،انہوں نے خود کہا پولینڈ میں ان کا طے تھا کہ وہ چرچ میں یہ مسجد میں بچے لے جایا کریں گے،اس طرح پھر اٹھارہ سال کے بعد بچے خود طے کر لیں گے انہوں نے کس طرف جانا ہے، عدالت نے شوہر سلیم سے استفسار کیاکہ اگر بچے آپ کو دیے جائیں تو مائیں ملاقات کیسے کریں گی جس پر سلیم نے کہاکہ مائیں جب چاہیں بچوں سے ملاقات کر سکتی ہیں ان کو پاکستان کا ریٹرن ٹکٹ اور یہاں کے اخراجات بھی میں خود اداکروں گا،

عدالت کے استفسار پر دونوں ماؤں نے بھی کہاکہ اگر بچے ان کے پاس ہوں تو والد جب چاہیے جیسے چاہے بچوں سے ملاقات کر سکتاہے، دلائل سننے کے بعد عدالت نے دونوں بچوں کو ان کی ماؤں کے حوالہ کرنے اور بچوں کے نام ای سی ایل سے نکالنے کاحکم دیتے ہوئے بچوں کے پاسپورٹ بھی ان کے حوالہ کردیے اور کہاکہ بچے جب چاہیں اپنے والد کو مل سکتے ہیں،بچوں کی مائیں بچوں کے والد سے پاکستان میں ملاقات یقینی بنائیں گی،عدالت نے درخواست نمٹادی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں