پشاور (عکس آن لائن)پشاور ہائی کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم اور پارٹی نشان واپس لینے کے الیکشن کمیشن کے فیصلے پر حکم امتناع جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ کیس کا فیصلہ ہونے تک الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل ہوگا،چھٹیوں کے ختم ہونے کے بعد پہلے ڈبل بینچ میں کیس سنا جائے۔
منگل کو پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس کامران حیات میاں خیل نے پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت کی ۔پی ٹی آئی کے رہنما بیرسٹر علی ظفر اور بیرسٹر علی گوہر نے درخواست پر دلائل دئیے۔بیرسٹر علی ظفر نے دلائل شروع کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کا انٹراپارٹی انتخابات کے حوالے سے فیصلے کا اختیار ہی نہیں ، قانون کے مطابق الیکشن کمیشن کو تمام تر دستاویز فراہم کردیں۔
انہوںنے کہاکہ الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کا پہلا بڑا نقصان یہ ہوا کہ پی ٹی آئی کو بلا نشان نہیں مل سکے گا، اس فیصلے سے پی ٹی آئی 8 فروری کے انتخابات میں حصہ بھی نہیں لے سکے گی۔بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دئیے کہ نشان کے بغیر ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت انتخابات سے باہرکی گئی، الیکشن کمیشن کا فیصلہ غیر آئینی اور غیر قانونی ہے۔
انہوںنے کہاکہ پارٹی کے ساتھ ایسا سلوک کرنا بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے، آرٹیکل 17 کے تحت سیاسی جماعت کا انتخابی نشان کی فراہمی آئینی حق ہے، دنیا میں کہیں بھی ایسا قانون نہیں کہ جہاں الیکشن کمیشن اپیلیٹ کورٹ بن جا ئے۔بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ پی ٹی آئی کے 8 لاکھ سے زائد ممبرز ہیں اور کسی نے سوال نہیں اٹھایا، جس پر جسٹس کامران حیات نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن کے پاس آنے والے درخواست گزار کون تھے۔
بیرسٹر علی ظفر نے بتایا کہ عام لوگ تھے، پی ٹی آئی کا حصہ نہیں، سول کورٹ میں مناسب ٹرائل کے بغیر ایسے کیسز میں فیصلہ نہیں دیا جاسکتا۔بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیے کہ الیکشن کمیشن نے کہا کہ عمر ایوب سیکرٹری جنرل نہیں اس لیے وہ تعیناتی نہیں کرسکتا، اگر عام انتخابات میں بھی کسی کی تعیناتی غلط ہو تب بھی انتخابات چیلنج نہیں کیے جاسکتے۔
انہوں نے مؤقف اپنایا کہ کسی بھی سیاسی پارٹی کو صرف سپریم کورٹ نکال سکتا ہے،الیکشن کمیشن کمیشن نہیں، جس پر جسٹس کامران حیات نے استفسار کیا کہ آپ کی پارٹی کے آئین و رولزمیں انٹر پارٹی انتخابات کا کیا طریقہ کار ہے؟بیرسٹرعلی ظفر نے بتایا کہ پارٹی چیئرمین کا انتخاب خفیہ بیلٹ پر ہوگا، رجسٹرڈ ووٹرز ہی الیکشن میں حصہ لے سکتے ہیں، انٹراپارٹی انتخابات رولزہم نیبنائے ہیں، ہم ہی اپ ڈیٹ کرینگے، الیکشن کمیشن ڈائریکشن نہیں دے سکتا۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ایک طرف ہمیں کہا جاتا ہے کہ 20 دن میں انٹرا پارٹی انتخابات کروائیں اوردوسری جانب اعتراض کررہے ہیں، انٹرا پارٹی کے خلاف 14 بندوں نے الیکشن کمیشن میں درخواست دی، ایک بھی پارٹی ممبر نہیں تھا۔انہوں نے عدالت کو بتایا کہ الیکشن کمیشن کو کہا کہ درخواست گزار پی ٹی آئی ممبر شپ کو کوئی ثبوت دیں، اگر انتخابی نشان نہیں ملا تو ہمیں اقلیتی اور خواتین کی مخصوص نشستیں نہیں ملے گی۔
انہوںنے کہاکہ 30 دسمبر اسکروٹنی کا آخری دن ہے، ہمیں نشان الرٹ کیا جائے۔پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے پانچ منٹ کا وقفہ کردیا۔وقفے کے بعد الیکشن کمیشن کو درخواست دینے والے جہانگیر کے وکیل نوید اختر نے عدالت کو بتایا کہ پی ٹی آئی نے مقررہ وقت میں انتخابات نہیں کرائے، ہم نے مقررہ وقت میں انتخابات نہ کرانے کی خلاف درخواست دی تھی جس پر جسٹس کامران حیات نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن نے 20 دن کا وقت دیا تو آپ کی بات ختم ہوگئی، اب سوال یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کے پاس کونسا اختیار ہے کہ وہ پارٹی سرٹیفیکٹ مسترد کرے۔
نوید اختر ایڈووکیٹ نے کہا کہ انٹرا پارٹی انتخابات نہ کرانے پر الیکشن کمیشن جرمانہ لگا سکتا ہے، جس پر جسٹس کامران حیات نے استفسار کیا کہ آپ میرے سوال کا جواب دیں، آپ کبھی ایک اور کبھی دوسری بات کرتے ہیں۔جسٹس کامران حیات نے کہا کہ جب الیکشن کا اعلان ہو جائے تو کس قانون کے تحت روک رہے ہیں، جس پر نوید اختر ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ انٹرا پارٹی انتخابات کی تفصیل فراہم کرنے کے بعد الیکشن کمیشن خود کو مطمئن کرے گا۔جسٹس کامران حیات نے استفسار کیا کہ جب چیئرمین اور سیکریٹری ختم ہوجائے تو پھر کیسے انتخابات کرائیں گے؟
ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ یہ ڈویژنل بنچ کا کیس ہے، جسٹس کامران حیات نے ریمارکس دیے کہ ہم نے کیس کا فیصلہ نہیں کرنا، آج ہم نے عبوری ریلیف پر فیصلہ کرنا ہے۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل ثنا اللہ نے دلائل دئیے کہ انٹرم ریلیف دینے سے لگے گا کہ حتمی فیصلہ بھی دے دیا، جس پر جسٹس کامران حیات نے ریمارکس دیے کہ کل کو اگر ہم کسی فیصلے پر پہنچ جائیں تو پھر پانی سر اوپر گزرا ہوگا۔جسٹس کامران حیات نے استفسار کیا کہ کیا پھر الیکشن کمیشن دوبارہ انتخابات کرائے گا،
انہوں نے ریمارکس دیے کہ ایک آرڈر سے پارٹی کو انتخابات سے نکال دیا گیا۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ پھر اس کے لیے ڈویژنل بنچ تشکیل دیا جائے، یہ ڈویژنل بنچ کا کیس ہے، الیکشن کمیشن خود مختار ادارہ ہے اور ان کے پاس اختیار ہے۔جسٹس کامران حیات نے کہا کہ آپ بتائیں نا کس قانون کے تحت فیصلہ کیا گیا؟ایڈیشنل اٹارنی جنرل ثنا اللہ نے کہا کہ میری بات تحمل سے سن لی جائے، عدالت کی معاونت کروں گا، الیکشن کمیشن اگر پارٹی کو ختم کرے تو ایسی صورت میں سپریم کورٹ جانا ہوگا۔
جسٹس کامران حیات نے ریمارکس دیے کہ پی ٹی آئی نے تو سارے کاغذات جمع کئے اور آپ نے جماعتوں کی فہرست میں شامل کیا، اگر کاغذات نہ دیتے اور الیکشن کمیشن نے ختم کیا ہوتا تو تب سپریم کورٹ جاتے۔جسٹس کامران حیات نے کہا کہ یہ کہاں لکھا ہے کہ ایک پارٹی انتخابات کرائے اور تفصیل فراہم کرنے کے بعد الیکشن کمیشن اسے تسلیم نہ کرے جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ سادہ بات ہے کہ یہ کیس ڈویژنل بنچ کا ہے، ان کی استدعا اور انٹرم ریلیف ایک ہی ہے، کیسے آپ حکم امتناع دے سکتے ہیں؟
جسٹس کامران حیات نے کہا کہ یہ چیف جسٹس فیصلہ کریں گے کہ کب ڈویڑنل بنچ کو لگے گا۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل کے دلائل پر مشال یوسفزئی ہنس پڑیں۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہاں میں مذاق کیے لیے کھڑا ہوں کہ یہ ہنس رہی ہے، آپ انہیں کہیں کہ یہاں سے ‘شٹ آف’ ہوجائے، جس پر جسٹس کامران حیات نے ہدایت دی کہ بی بی آپ سائید پر بیٹھ جائیں۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے سوال اٹھایا کہ ان کو کیا جلدی ہے، انتخابی نشان الاٹ کرنے میں ابھی تو وقت ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل ثنا ء اللہ نے کہا کہ میری بات سنی جائے، تحمل سے عدالت کی معاونت کروں گا، الیکشن کمیشن اگر پارٹی کو ختم کرے تو سپریم کورٹ جانا ہوگا۔جسٹس کامران حیات نے ریمارکس دئیے کہ پی ٹی آئی نے کاغذات جمع کرائے، آپ نے فہرست میں شامل کیا، کاغذات نہ دیتے،الیکشن کمیشن نے ختم کیا ہوتا تب سپریم کورٹ جاتے، کہاں لکھا ہے ایک پارٹی تفصیل فراہم کریاورالیکشن کمیشن تسلیم نہ کرے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے مؤقف اختیار کیا کہ سادہ بات یہ ہے کہ یہ کیس ڈویژنل بنچ کا ہے، ان کی استدعااورانٹرم ریلیف ایک ہے،کیسیحکم امتناع دے سکتے ہیں؟جسٹس کامران حیات نے ریمارکس دیے کہ یہ چیف جسٹس فیصلہ کریں گے کہ کب ڈویژنل بینچ کو لگے گا، یہ چیف جسٹس فیصلہ کریں گیکہ کب ڈویژنل بنچ لگے گا۔بعد ازاں عدالت میں پی ٹی آئی کی الیکشن کمیشن کے خلاف درخواست پر دلائل مکمل نے کے بعد پشاور ہائی کورٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کردیا۔دالتی فیصلے کے مطابق کیس کا فیصلہ ہونے تک الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل ہوگا۔عدالت نے کہا کہ چھٹیوں کے ختم ہونے کے بعد پہلے ڈبل بینچ میں کیس سنا جائے۔
فیصلے کے بعد گفتگو کرتے ہوئے بیرسٹر گوہرعلی خان نے علی ظفر کے ہمراہ کہا کہ پشاورہائی کورٹ نے پی ٹی آئی کے خلاف سازشیں ختم کردیں۔بیرسٹر گوہر نے کہا کہ پشاور ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی کے خلاف سازشیں ختم کردیں، عدلیہ نے 25کروڑ عوام کا اعتماد بحال کردیا۔انہوں نے کہا کہ ہماری خلاف سازشیں ختم ہوگئیں، ہشاور ہائیکورٹ نیہمیشہ انصاف کا سر اونچا کیا۔بیرسٹر گوہر علی خان نے کہا کہ انتخابی نشان کسی بھی پارٹی کا آئینی حق ہوتا ہے، پشاور ہائی کورٹ نے آج بلے کا نشان بحال کردیا ہے، انہوں نے کہا کہ ہم اب بلے کے نشان پر الیکشن لڑ سکتے ہیں۔
اس موقع پر بیرسٹر گوہر علی خان کے ہمراہ موجود بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ہم اب بلے کے نشان پر الیکشن لڑ سکتے ہیں، انتخابی نشان سیاسی جماعت کی جان ہوتا ہے۔بیرسٹر گوہر نے پشاور ہائی کورٹ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہائی کورٹ میں موسم سرما کی چھٹیاں ہے، سنگل بینچ بھی الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کرسکتا ہے۔پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما و سابق وزیر بابر اعوان نے کہا کہ پی ٹی آئی کا انتخابی نشان بلا تھا اور بلا ہی رہے گا۔انہوںنے کہاکہ عمران خان پی ٹی آئی کے چیئرمین تھے اور رہیں گے۔
انہوں نے بتایا کہ سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ الیکشن میں جو بھی رکاوٹ ڈالے گا ان کیخلاف توہین عدالت ہوگا، پنجاب میں پی ٹی آئی کے ساتھ پری پول دھاندلی ہورہی ہے، خواتین کے آنچل کھینچے گئے اور بازوں مروڑے گئے، امیدواروں سے کاغذات نامزدگی تک چھینے گئے ہیں۔یاد رہے کہ پی ٹی آئی کی جانب سے درخواست بیرسٹر ظفر، علی گوہر، علی امین گنڈا پور، عمر ایوب، منیراحمد بلوچ، ظاہرشاہ اور انور تاج نے جمع کروائی ہے، جس میں الیکشن کمیشن کو فریق بنایا گیا ہے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کے فیصلہ کو غیرقانونی قرار دیا جائے۔درخواست میں مؤقف اپنایا گیا کہ انٹرا پارٹی انتخابات پر سوال اٹھانا ہی غلط تھا، بلے کا نشان لینا بھی غلط ہے، واپس کیا جائے، پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کا سرٹیفیکیٹ جاری کیا جائے۔درخواست میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کرکے بلے کا نشان بحال کیا جائے۔واضح رہے کہ گزشتہ روز پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کالعدم قرار دینے اور بلے کا انتخابی نشان واپس لینے کے فیصلے کے خلاف پشاور ہائی کورٹ میں جانے کا فیصلہ کیا تھا۔
22 دسمبر کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن کالعدم قرار دیتے ہوئے بلے کا انتخابی نشان واپس لے لیا تھا۔فیصلے میں کہا گیا تھا کہ تحریک انصاف نے 23 نومبر 2023 کو دیے گئے فیصلے میں کی گئی ہدایات پر عمل نہیں کیا اوہ وہ پی ٹی ا?ئی کے 2019 کے ا?ئین، الیکشن ایکٹ 2017 اور الیکشن رولز 2017 کے مطابق انٹرا پارٹی الیکشنز کرانے میں ناکام رہیں۔