اسلام آباد (عکس آن لائن) سابق آرمی چیف جنرل(ر) پرویز مشرف کے 1999 میں اقتدار پر قبضہ کرنے اور خود کو ملک کا چیف ایگزیکٹو قرار دینے کے 8 سال بعد 2007 میں ملک میں ایک مرتبہ پھر ایمرجنسی نافذ کی،اس سال 3 نومبر سے 15 دسمبر کے مختصر عرصے کے لیے آئین معطل رہا تھا اور چیف جسٹس سمیت متعدد ججز کو حراست میں لے لیا گیا تھا۔اس کے بعد احکامات کا اعلان کیا گیا جس میں جون 2001 میں صدر کے عہدے پر خود تعینات ہونے والے پرویز مشرف نے اعلی عدلیہ کے ‘دہشت گردی اور شدت پسندی سے نمٹنے میں ایگزیکٹوز اور قانون کے برعکس کام کرنے’ کو بنیاد بنا کر ایمرجنسی نافذ کی تھی۔
رپورٹ کے مطابق 3 نومبر 2007 پرویز مشرف نے ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے 1973 کے آئین کو معطل کردیا جس کی وجہ سے چیف جسٹس آف پاکستان سمیت اعلی عدالت کے 61 ججز فارغ ہوگئے۔ملک کے تمام نجی چینلز کو بند کردیا گیا اور صرف سرکاری نشریاتی ادارے ‘پی ٹی وی’ پر ایمرجنسی کے احکامات نشر کیے گئے جس میں ‘انتہا پسندوں کی سرگرمیوں میں بڑھتے ہوئے اضافے کو’ ایمرجنسی کی وجہ بتایا گیا۔
28 نومبر 2007 پرویز مشرف سیاست سے ریٹائر ہوئے اور فوج کی کمان جنرل اشفاق پرویز کیانی کو سونپی۔29 نومبر2007 ریٹائرڈ جنرل نے عوامی صدر کے عہدے کا حلف اٹھایا۔15 دسمبر 2007 پرویز مشرف نے ایمرجنسی ختم کی اور عبوری آئینی حکم نامہ (پی سی او) واپس لیا اور صدارتی فرمانوں کے ذریعے ترمیم شدہ آئین کو بحال کیا۔سپریم کورٹ، ہائی کورٹس اور وفاقی شرعی عدالتوں کے چیف جسٹس اور ججز نے تازہ حلف اٹھایا۔7 جون 2008 پرویز مشرف نے واضح کیا کہ ان کا استعفی دینے یا جلا وطن ہونے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔18 گست2008 ملک پر 9 سال تک حکمرانی کے بعد پرویز مشرف نے عہدہ چھوڑ دیا جس کی وجہ سے ان کے خلاف مواخذے کے امکانات ختم ہوگئے۔
22 جولائی 2009 سپریم کورٹ نے سابق فوجی حکمران کو 3 نومبر 2007 کے اقدامات کا دفاع کرنے کے لیے طلب کیا۔یکم اگست2009سپریم کورٹ نے حکم جاری کیا کہ پرویز مشرف کا 3 نومبر 2007 کو ایمرجنسی نافذ کرنے اور ان کے پی سی او غیر قانونی اور غیر آئینی ہیں۔عدالت نے انہیں جواب جمع کرانے کے لیے 7 روز کی مہلت بھی دی۔6 اگست 2009 پرویز مشرف ان کے خلاف لگائے گئے الزامات کا جواب دینے سے انکار کرتے ہوئے پاکستان چھوڑ کر برطانیہ چلے گئے۔8 جون 2010 سابق صدر کے سیاسی ساتھیوں نے سیاسی جماعت بنائی جس کا نام آل پاکستان مسلم لیگ (اے پی ایم ایل )رکھا گیا اور اس کے سربراہ پرویز مشرف تھے۔22 مارچ 2013 پرویز مشرف کو ملک واپس آنے پر 10 روز کی حفاظتی ضمانت ملی۔24 مارچ 2013 خود ساختہ جلا وطن ہونے والے سابق صدر عام انتخابات میں حصہ لینے کے لیے پاکستان واپس آئے۔27 مارچ 2013 سینیئر وکیل اے کے ڈوگر نے انتخابات کے دوران آرٹیکل 62 اور 63 پر سختی سے عمل درآمد کے لیے سپریم کورٹ کو پرویز مشرف کے 3 نومبر 2007 کے اقدام کا حوالہ دیا۔
29 مارچ 2013 سندھ ہائی کورٹ نے پرویز مشرف کی ضمانت میں توسیع کی تاہم حکم دیا کہ وہ بغیر اجازت ملک سے باہر نہیں جاسکتے۔فیصلے کا اقتباس پڑھتے ہوئے انہوں نے موقف اپنایا کہ آئین معطل کرنے سے مشرف نے سنگین غداری کی ہے۔29 مارچ 2013سپریم کورٹ نے سابق فوجی حکمران کو ان کے خلاف سنگین غداری کیس میں طلب کیا۔ عدالت نے وزارت داخلہ کو ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل ؟) میں ڈالنے کا بھی حکم دیا۔29 مارچ 2013 سندھ ہائی کورٹ نے پرویز مشرف کی ضمانت میں توسیع کی تاہم حکم دیا کہ وہ ملک سے بغیر اجازت باہر نہیں جاسکتے۔5 اپریل 2013 سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری ایکٹ 1973 کے دفعہ 2 اور 3 کے تحت پرویز مشرف کے خلاف کیس کی سماعت منظور کی۔7 اپریل 2013چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس سے علیحدگی اختیار کرلی تھی۔
18 اپریل 2013پرویز مشرف ضمانت کی درخواست مسترد ہونے پر اسلام آباد ہائی کورٹ کی حدود سے فرار ہوگئے۔19 اپریل 2013 پرویز مشرف نے ججز کو حراست میں لینے کے کیس میں مجسٹریٹ عدالت کے آگے سرنڈر کردیا۔اسلام آباد میں ان کے فارم ہاوس چک شہزاد کو ‘سب جیل’ قرار دیا گیا۔
30 اپریل 2013 پشاور ہائی کورٹ نے پرویز مشرف پر قومی اسمبلی یا سینیٹ کے انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی عائد کی۔5 جون 2013 اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج شوکت عزیز صدیقی نے ججز کو حراست میں لینے کے کیس میں پرویز مشرف کی گرفتاری کے بعد ضمانت کی درخواست سننے سے انکار کردیا اور کہا کہ ‘جب میں نے اپریل میں ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست مسترد کی تھی تو میرے خلاف بدنیتی پر مبنی مہم چلائی گئی تھی۔14 جون 2013 اس وقت کے وزیر قانون و انصاف جسٹس زاہد حامد نے 2007 کے ایمرجنسی کیس سے خود کو الگ کرلیا۔وزیر کا کہنا تھا کہ ان پر پرویز مشرف کے ساتھ زیادتی کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا کیونکہ سابق صدر نے یہ اعلان خود کیا تھا۔انہوں نے پرویز مشرف کے ساتھ کسی قسم کے رابطے کو بھی مسترد کردیا۔
24 جون 2013 وزیر اعظم نواز شریف نے قومی اسمبلی کو بتایا کہ ان کی حکومت سپریم کورٹ سے پرویز مشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت ٹرائل کی درخواست کرے گی۔18 نومبر2013چیف جسٹس افتحار چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ نے سابق صدر کے خلاف سنگین غداری کا کیس چلانے کے لیے خصوصی ٹربیونل قائم کرنے پر رضامندی کا اظہار کیا۔13 نومبر 2013مسلم لیگ (ن)کی حکومت نے خصوصی عدالت میں پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کے 5 الزامات عائد کیے تھے۔12 دسمبر 2013 کو خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس کا سامنا کرنے کے لیے طلب کیا تھا۔
20 دسمبر 2013سابق آرمی چیف نے انٹرویو میں اپنے دور حکمرانی کے دوران کچھ بھی غلط کام کرنے پر ‘معافی’ طلب کی تھی۔2 جنوری 2014پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس کی سماعت کے لیے خصوصی عدالت لے جاتے ہوئے ‘دل کے عارضے’ کی وجہ سے ہسپتال لے جایا گیا۔ان کے وارنٹ گرفتاری طبی بنیادوں پر جاری نہیں کیے گئے تھے۔7 جنوری 2014 آرمڈ فورسز انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی(اے ایف آئی سی) نے پرویز مشرف کی میڈیکل رپورٹ عدالت میں جمع کرائی جس میں بتایا گیا کہ سابق آرمی چیف کے ‘دل کی 3 شریانیں بند ہیں اور دیگر 8 بیماریاں’ لاحق ہیں۔
16 جنوری 2014 خصوصی عدالت نے اے ایف آئی سی کو سابق صدر کی صحت کا جائزہ لینے کے لیے میڈیکل بورڈ بنانے اور رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیا جس نے پرویز مشرف کی حالت کو ‘سنگین’ بتایا اور ان کا علاج ان کے مرضی کے مقام پر کرنے کی تجویز دی۔28 جنوری 2014استغاثہ نے پرویز مشرف کی میڈیکل رپورٹ پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے خصوصی عدالت سے اے ایف آئی سی کے سربراہ کو جرح کے لیے طلب کرنے کی درخواست کی۔7 فروری 2014خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں دوبارہ پیش ہونے کا کہا۔
18 فروری 2014سماعتوں میں عدم پیشی کے بعد پرویز مشرف عدالت میں پیش ہوئے تاہم ان پر فرد جرم عائد نہیں کی گئی کیونکہ دفاع نے موقف اپنایا کہ ان کے خلاف کیس کی سماعت فوجی عدالت میں ہونی چاہیے۔21 فروری 2014خصوصی عدالت نے حکم جاری کیا کہ سابق آرمی چیف کا فوجی عدالت میں ٹرائل نہیں ہوگا۔30 مارچ 2014پرویز مشرف پر سنگین غداری کیس میں فرد جرم عائد کی گئی تاہم انہوں نے صحت جرم سے انکار کیا۔یکم اپریل2014مسلم لیگ (ن)کی حکومت نے پرویز مشرف کی بیمار والدہ کو پاکستان سے شارجہ لے جانے کی پیشکش کی۔2 اپریل 2014حکومت نے پرویز مشرف کی ای سی ایل سے نام نکالنے کی درخواست مسترد کی تھی۔
3 اپریل 2014پرویز مشرف نے سپریم کورٹ میں ان کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست دائر کی تاکہ وہ اپنی بیمار والدہ کی عیادت کے لیے بیرون ملک جاسکیں۔7 اپریل 2014آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس پر اپنی خاموشی توڑتے ہوئے کہا کہ ‘حالیہ دنوں میں ادارے پر ہونے والی تنقید کے رد عمل میں فوج اپنا وقار اور ادارے کا فخر کا تحفظ کرے گی۔14 مئی2014وفاقی تحقیقاتی ایجنسی(ایف آئی اے )نے پرویز مشرف پر غیر قانونی طور پر 2007 میں ایمرجنسی نافذ کرنے کے ‘ناقابل تلافی’ شواہد پیش کیے۔12 جون 2014 سندھ ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت کے بیرون ملک سفر پر پابندی کے فیصلے کے خلاف فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ‘سابق صدر کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کی کوئی وجہ پیش نہیں کی گئی ہے۔
13 جون 2014 خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کی 2007 کی ایمرجنسی میں ‘اعانت’، جنہوں نے اس کی تجویز دی، اس کی تائید کی اور اس کو نافذ کیا، کی تفصیلات کی درخواست مسترد کردی۔14 جون 2014 حکومت نے عدالت عظمی میں سندھ ہائی کورٹ کی پرویز مشرف کو بیرون ملک سفر کرنے کی اجازت دینے کے فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست دائر کی۔23 جون 2014عدالت عظمی نے سندھ ہائی کورٹ کے احکامات اپیل کے زیر التوا ہونے تک معطل کردیے جس کے تحت پرویز مشرف کو بیرون ملک جانے کی اجازت دی گئی تھی۔
8 ستمبر2014پرویز مشرف کی قانونی ٹیم نے 2007 میں ایمرجنسی عائد کرنے کے حوالے سے اس وقت کے وزیر اعظم شوکت عزیز کے کردار سے متعلق اہم ثبوت کی طرف نشان دہی کی۔15 اکتوبر2014سابق صدر کی قانونی ٹیم نے خصوصی عدالت سے پرویز مشرف کے تمام ساتھیوں کا ٹرائل ایک ساتھ کرنے کی درخواست کی۔21 نومبر2014خصوصی عدالت نے وفاقی حکومت کو غداری کیس میں اپنی درخواست دوبارہ جمع کرانے کی ہدایت کی اور چارج شیٹ میں میں سابق وزیر اعظم شوکت عزیز، اس وقت کے وزیر قانون زاہد حامد اور سابق چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کے نام شامل کرنے کا کہا۔22 دسمبر2015 پرویز مشرف نے کہا کہ انہوں نے جنرل اشفاق پرویز کیانی سمیت دیگر سیاسی و عسکری رہنماں سے مشاورت کے بعد ایمرجنسی نافذ کی۔
14 مارچ 2016 سابق صدر نے طبی بنیادوں پر ایک بار بیرون ملک جانے کی اجازت طلب کی۔16 مارچ2016 سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دیتے ہوئے انہیں علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دی۔18 مارچ 2016 پرویز مشرف یہ وعدہ کرتے ہوئے علاج کے لیے دبئی روانہ ہوئے کہ وہ چند ہفتے میں وطن واپس لوٹ آئیں گے۔11 مئی2016 سنگین غداری کیس میں خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کو مفرور قرار دیا۔16 نومبر 2016پرویز مشرف کے فارم ہاس کو سنگین غداری کیس سے منسلک کر دیا گیا۔27 فروری 2017سابق صدر نے ٹی وی پر بطور تجزیہ کار اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔10 نومبر2017 پرویز مشرف نے 23 سیاسی جماعتوں کے ‘گرینڈ الائنس’ کا اعلان کیا جو پاکستان عوامی اتحاد (پی اے آئی)کے زیر سایہ کام کرے گا۔29 مارچ 2018 جسٹس یحیی آفریدی کی جانب سے سنگین غداری کیس کی سماعت سے معذرت کے بعد خصوصی عدالت کا بینچ تحلیل ہوگیا۔7 اپریل2018چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے مشرف غداری کیس کا بینچ دوبارہ تشکیل دیا۔
31 مئی2018وزارت داخلہ نے خصوصی عدالت کے احکامات کی روشنی میں نادرا اور ڈائریکٹوریٹ جنرل امیگریشن اور پاسپورٹ کو پرویز مشرف کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ معطل کرنے کی ہدایت کی۔7 جون 2018سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کو اس شرط پر انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی کہ وہ عدالت میں ذاتی طور پر پیش ہوں گے۔20 جون 2018 مشرف نے کہا کہ وہ پاکستان واپس آنے کے لیے تیار تھے لیکن سپریم کورٹ کے حکام کو انہیں گرفتار کرنے کے احکامات کے باعث انہوں نے اپنا ذہن تبدیل کر لیا ہے۔30 جولائی 2018سنگین غداری کیس میں پراسیکیوشن سربراہ نے عہدے سے استعفی دے دیا۔
3 اگست 2018خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کے بیرون ملک جانے کی وجہ سے رکنے والے ٹرائل کے 20 اگست سے دوبارہ آغاز کا فیصلہ کیا۔20 اگست 2018 جان کو خطرات لاحق ہونے کا حوالہ دے کر مشرف نے غداری کیس میں عدالت میں پیش ہونے کے لیے صدارتی سیکیورٹی دینے کا مطالبہ کیا۔29 اگست 2018 خصوصی عدالت کو بتایا گیا کہ انٹرپول نے مشرف کو متحدہ عرب امارات سے پاکستان واپس لانے کے لیے انٹرپول نے ان کے ریڈ وارنٹ جاری کرنے سے انکار کردیا ہے۔
2 اکتوبر2018 چیف جسٹس ثاقب نثار نے خود کو ‘بہادر کمانڈو’ کہنے والے مشرف کے واپس نہ آنے پر ان کے وکیل کی سرزنش کی۔24 اکتوبر2018 آل پاکستان مسلم لیگ (اے پی ایم ایل) نے اپنے بیان میں کہا کہ مشرف کو ایمیلوئڈوسز (Amyloidosis) کی بیماری لاحق ہے جس کے باعث انہیں کھڑے رہنے اور چلنے میں مشکلات ہیں۔19 نومبر2018 خصوصی عدالت نے مشرف کے وکیل سے کہا کہ وہ اپنے موکل کو وطن واپسی کے لیے قائل کریں تاکہ سنگین غداری کیس کی کارروائی آگے بڑھے۔
31 مارچ 2019سپریم کورٹ نے مشرف کو حکم دیا کہ وہ غداری کیس میں 2 مئی کو خصوصی عدالت کے روبرو پیش ہو ورنہ وہ اپنے دفاع کا حق کھو دیں گے۔یکم اپریل 2019 چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ نے خصوصی عدالت کے لیے حکم جاری کیا کہ پرویز مشرف اگر مقررہ تاریخ تک اپنا بیان ریکارڈ نہیں کراتے تو وہ غداری کیس کو ان کے بیان کے بغیر کی آگے بڑھائے۔
11 جون 2019 سپریم کورٹ نے نادرا کو پرویز مشرف کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بحال کرنے کا حکم دیا۔30 جولائی 2019 غداری کیس میں پراسیکیوشن سربراہ نے استعفی دیا۔8 اکتوبر2019خصوصی عدالت نے 24 اکتوبر سے غداری کیس کی سماعت روزانہ کرنے کا فیصلہ کیا۔24 اکتوبر2019 غداری کیس میں پی ٹی آئی نے پراسیکیوشن ٹیم کو برطرف کردیا۔19 نومبر2019سنگین غداری کیس میں خصوصی عدالت نے اپنی سماعت مکمل کرلی اور کہا کہ فیصلہ 28 نومبر کو سنایا جائے گا۔23 نومبر 2019پرویز مشرف نے غداری کیس کا فیصلہ محفوظ کرنے کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی۔25 نومبر2019 کیس نے نیا رخ لیا اور وزارت داخلہ نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی جس میں پراسیکیوشن کو سنے بغیر خصوصی عدالت کے غداری کیس کا فیصلہ محفوظ کرنے کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی۔26 نومبر2019 لاہور ہائی کورٹ نے خصوصی عدالت کے فیصلہ محفوظ کرنے کے خلاف پرویز مشرف کی درخواست سماعت کے لیے قبول کر لی۔
27 نومبر 2019 اسلام آباد ہائی کورٹ نے خصوصی عدالت کو پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا فیصلہ سنانے سے روک دیا۔28نومبر2019 خصوصی عدالت نے سنگین غداری کیس کی سماعت میں اپنے تحریری فیصلے میں کہا کہ وہ ہائی کورٹ کے فیصلے پر کوئی تبصرہ نہیں کریں گے اور 3 ججز پر مشتمل بینچ کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کے پابند نہیں۔اسی روز لاہور ہائی کورٹ نے سنگین غداری کیس میں خصوصی عدالت کی جانب سے فیصلہ محفوظ کرنے کے خلاف دائر درخواست میں وفاقی حکومت کو 3 دسمبر تک مکمل ریکارڈ جمع کروانے کا حکم دیا۔
3 دسمبر2019 اسلام آباد ہائی کورٹ نے خصوصی عدالت کو پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا فیصلہ سنانے سے روکنے کے تفصیلی فیصلے میں کہا تھا کہ خصوصی عدالت اس کےفیصلے کی پابند ہے۔اسی روز لاہور ہائی کورٹ نے پرویز مشرف کی درخواست پر وفاقی حکومت کو سابق صدر کے خلاف سنگین غداری کیس کا مکمل ریکارڈ پیش کرنے کے لیے وقت دیا تھا۔
3 دسمبر ہی کو پرویز مشرف کو امراض قلب اور فشار خون (بلڈ پریشر)کے حوالے سے پیچیدگیوں کے باعث دبئی کے ہسپتال میں داخل کروادیا گیا۔4 دسمبر 2019 پرویز مشرف نے دبئی کے ہسپتال سے جاری ویڈیو پیغام میں کہا کہ ‘اس کیس میں میری سنوائی نہیں ہورہی، صرف یہی نہیں کہ میری سنوائی نہیں ہورہی بلکہ میرے وکیل سلمان صفدر کو بھی نہیں سن رہے، میری نظر میں بہت زیادتی ہورہی ہے اور انصاف کا تقاضہ پورا نہیں کیا جارہا۔5 دسمبر2019 اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے سابق صدر جنرل (ر)پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس میں استغاثہ کو 17 دسمبر تک کی مہلت دیتے ہوئے ریمارکس دیے تھے کہ اس تاریخ کو دلائل سن کر فیصلہ سنا دیں گے۔
10 دسمبر2019 لاہور ہائی کورٹ نے سنگین غداری کیس کا فیصلہ سنانے کے خلاف سابق صدر جنرل (ر)پرویز مشرف کی درخواست پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو سیکریٹری داخلہ سے ہدایت لے کر پیش ہونے کا حکم دیا۔12 دسمبر2019 لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر توفیق آصف نے سابق صدر کے خلاف خصوصی عدالت میں سنگین غداری کیس کا فیصلہ روکنے کے اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی۔16 دسمبر 2019 لاہور ہائی کورٹ نے پرویز مشرف کی جانب سے خصوصی عدالت کی کارروائی رکوانے کے لیے دائر کی گئی متفرق درخواست پر وفاقی حکومت کو نوٹس جاری کیا۔
17 دسمبر 2019 لاہورہائی کورٹ کے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے پرویز مشرف کی جانب سے دائر درخواستوں پر فل بینچ بنانے کی سفارش کرتے ہوئے معاملہ چیف جسٹس کو بھجوادیا۔اسی روز خصوصی عدالت نے سنگین غداری کیس میں سابق صدر جنرل (ر)پرویز مشرف کو غداری کا مرتکب قرار دیتے ہوئے سزائے موت کا حکم دیا۔