کوئنز ٹاؤن (عکس آن لائن)پاکستان ویمنز ٹیم ایک نئی تاریخ رقم کرنے کے بعد کلین سوئپ کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہفتے کے روز نیوزی لینڈ ویمنز کے خلاف تیسرے اور آخری ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں مدمقابل ہوگی۔پاکستان ویمنز ٹیم نے ڈنیڈن میں سات وکٹوں اور دس رنز کی جیت کے ذریعے سیریز میں دو صفر کی برتری حاصل کرلی ہے۔دونوں ٹیموں کے درمیان تیسرا اور آخری ٹی ٹوئنٹی ہفتے کے روز کوئنز ٹاؤن میں کھیلا جائے گا۔ ٹیم (آج) جمعہ سے جان ڈیوس اوول میں پریکٹس شروع کرے گی۔
اسی گراؤنڈ میں تیسرا ٹی ٹوئنٹی کھیلا جائے گا جو مقامی وقت کے مطابق دوپہر ایک بجے شروع ہوگا۔پاکستان ویمنز ٹیم پہلی ایشیائی ٹیم ہے جس نے نیوزی لینڈ میں ٹی ٹوئنٹی سیریز جیتنے کا اعزاز حاصل کیا ہے۔پاکستان ویمنز ٹیم کی اس شاندار کارکردگی کو کافی سراہا گیا ہے۔ نیوزی لینڈ ویمنز ٹیم جسے وائٹ فرنس بھی کہتے ہیں اس کی سابق وکٹ کیپر بیٹر کیٹی مارٹن نے بھی جو اس سیریز میں کمنٹری پینل کا حصہ ہیں پاکستان ویمنز ٹیم کی شاندار کارکردگی کو سراہا ہے۔38 سالہ کیٹی مارٹن نے جو 199 انٹرنیشنل میچز کھیل چکی ہیں پی سی بی ڈیجیٹل سے خصوصی گفتگو میں کہتی ہیں کہ یہ پاکستان ویمنز ٹیم کے لیے خاص دن رہا ہے۔ پاکستان میں خواتین ٹیم اور پی ایس ایل ویمنز لیگ کے نمائشی میچوں میں جو سرمایہ کاری کی گئی ہے اس سے کھلاڑیوں میں انٹرنیشنل سطح پر اعتماد پیدا ہوا ہے کیونکہ اس سے قبل بہت سی ٹیموں نے نیوزی لینڈ کو اسی کے گھر میں نہیں ہرایا ہے۔
انہوں نے کہا کہ انہیں خوشی ہوئی ہے کہ جس طرح یہ لڑکیاں میچ کھیلی ہیں۔ ان میں انرجی نظر آئی ہے اور انہوں نے چھکے بھی مارے ہیں اور جیت کا جس طرح انہوں نے جشن منایا ہے اسے دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ جیت ان کے لیے کیا معنی رکھتی ہے۔فاطمہ ثنا اس ٹیم میں ایکس فیکٹر ہیں۔ وہ ایک زبردست مقابلہ کرنے والی کھلاڑی ہیں میں نے ان سے مختصر بات کی ہے اور انہیں کچھ مشورے دیے ہیں جو ان کی بولنگ سے متعلق ہیں۔
کیٹی مارٹن کہتی ہیں کہ ندا ڈار ایک اچھی کپتان ہیں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہمسٹرنگ کے باوجود انہوں نے بہادری سے کھیلا ہے۔ ہم نے دیکھا کہ میچ کے بعد ان کی آنکھوں میں آنسو تھے جو اس بات کو ظاہر کرتے تھے کہ یہ جیت ان کے لیے کیا معنی رکھتی تھی۔ کیٹی مارٹن نے کہا کہ انہیں فخر ہے کہ پاکستان ٹیم جس طرح کوشش کررہی ہے اور انہیں اس کا صلہ بھی ملا ہے۔ انہیں صرف خود پر یقین کرنے کی ضرورت ہے جس کے بعد وہ دنیا کی چار بہترین ٹیموں کے خلاف بھی اسی طرح کے نتائج دے سکتی ہیں۔