کراچی(عکس آن لائن)ایف پی سی سی آئی کے نیشنل بزنس گروپ کے چیئرمین، پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فور م وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر اور سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ ٹیکسٹائل سیکٹر کرونا وائرس سے بری طرح متاثر ہوا تھا مگر یہ سب سے پہلے بحال ہونے والا شعبہ ہے ۔ حکومت کی مثبت پالیسیوں، کپاس کی بروقت درآمدات اور امریکہ و چین کے تجارتی محاذآرائی نے سب سے زیادہ برآمدات اور صنعتی روزگار فراہم کرنے والے اس کلیدی شعبے میں نئی روح پھونک دی ہے۔میاں زاہد حسین نے کاروباری برادری سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ ماہ کی ٹیکسٹائل برآمدات گزشتہ سال نومبر کے مہینے کے مقابلے میں 9 فیصد بڑھ کر 1.28 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہیں مگر اس سے بھی زیادہ خوشی کی بات یہ ہے کہ اس بار اعلیٰ کارکروگی کا سہرا ویلیو ایڈڈ سیکٹر کے سر ہے۔
کپاس کی فصل کی تباہی سے جہاں دھاگے اور سادہ کپڑے کی برآمدات کم ہو رہی ہیں وہیں ریڈی میڈگارمنٹس کے علاوہ تمام ویلیو ایڈڈ اشیاء کی برآمدات مسلسل بڑھ رہی ہیں۔اگر گندم چینی اور ایل این جی کی طرح کپاس کی درآمدات میں تاخیر کی جاتی یا درآمد پر ریگولیٹری ڈیوٹی ختم نہ کی جاتی تو ٹیکسٹائل کا شعبہ بیٹھ جاتا مگر اس سلسلے میں بہتر کارکردگی دکھائی گئی ہے جس کے نتیجے میں اگلے6 ماہ تک یہ شعبہ پوری استعداد پر چل کر ملک کے لئے بھاری زرمبادلہ کمائے گا۔وبا ء کے خاتمے یا امریکہ و چین کی تجارتی کشیدگی میں کمی کی صورت میں پاکستان مستقبل قریب میں ٹیکسٹائل آرڈرز سے محروم ہو سکتا ہے کیونکہ مغربی ممالک کے خریدار فوری طور پر ان منڈیوں کا رخ کریں گے جو زیادہ بہتر خدمات فراہم کر رہی ہیں جس سے نمٹنے کے لئے منصوبہ بنایا جائے تاکہ برآمدات کی رفتار کم نہ ہو۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ اہم پھنسے ہوئے ریفنڈز کی ادائیگی ہے جس پر سنجیدگی سے غور کیا جائے۔
اس کے علاوہ مقامی کپاس کی دستیابی اور بجلی و گیس کی قیمتوں کا جائزہ لیا جائے۔ پاکستان میں امسال کپاس کی پیداوار آدھی رہ گئی ہے جبکہ بھارت میں پیداوار دگنی ہو گئی ہے جس کی وجوہات جاننے اور مستقبل میں صورتحال کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ 2023 میںپاکستان کیلئے جی ایس پی پلس کی سہولت کی معیاد ختم ہو رہی ہے جس میں اضافے کیلئے ابھی سے تیاریوں کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان کا سب سے اہم صنعتی شعبہ ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کرتا رہے۔