اسلام آباد(عکس آن لائن)نئے مالی سال 24-2023کے وفاقی بجٹ کے چیدہ چیدہ نکات حسب ذیل ہیں۔٭ نئے مالی سال کے لیے معاشی شرح نمو 3.5 فیصد رہنے کا تخمینہ ہے۔ جبکہ افراط زر کی شرح اندازا 21 فیصد تک ہوگی۔٭ بجٹ خسارہ 6.54 فیصد اور پرائمری سرپلس مجموعی قومی پیداوار کا 0.4 فیصد ہوگا۔٭ اگلے مالی سال کے لیے برآمدات کا ہدف 30 ارب ڈالر جبکہ ترسیلات زر کا ہدف 33 ارب ڈالر مقرر کرنے کی تجویز ہے۔٭ ایف بی آر محاصل کا تخمینہ 9,200 ارب روپے ہے جس میں صوبوں کا حصہ 5,276 ارب روپے ہوگا۔٭ وفاقی نان ٹیکس محصولات 2,963 ارب روپے ہوں گے۔
٭ وفاقی حکومت کی کل آمدن 6887 ارب روپے ہوگی۔٭ وفاقی حکومت کے کل اخراجات کا تخمینہ 14,460 ارب روپے ہے جس میں سودکی ادائیگی پر 7,303 ارب روپے خرچ ہوں گے۔٭ نئے مالی سال میں پی ایس ڈی پی کے لیے 950 ارب روپے کا بجٹ مختص کیا گیا ہے۔٭ سرکاری اورنجی شعبہ کے اشتراک سے 200 ارب روپے کی اضافی رقم کے بعد مجموعی ترقیاتی بجٹ 1,150 ارب روپے کی تاریخی بلند ترین سطح پر ہوگا۔٭ ملکی دفاع کے لیے 1,804 ارب روپے، سول انتظامیہ کے اخراجات کیلئے 714 ارب روپے مہیا کیے جائیں گے۔٭ پنشن کی مد میں 761 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔٭ بجلی، گیس اور دیگر شعبہ جات کے لیے 1,074 ارب روپے کی رقم بطور سبسڈی رکھی گئی ہے۔
٭ آزاد کشمیر، گلگت بلتستان، خیبر پختونخوا میں ضم شدہ اضلاع، بے نظیرانکم سپورٹ پروگرام ،ہائیر ایجوکیشن کمیشن ، ریلویز اور دیگر محکموں کے لیے 1,464 ارب روپے کی گرانٹ مختص کی گئی ہے۔٭ عامل صحافیوں کیئے ہیلتھ انشورنس کارڈ اورفن کاروں کیلئے آرٹسٹ ہیلتھ انشورنس کارڈ کا اجرا کیا جائے گا۔٭ اقلیتوں ، سپورٹس پرسنز اور طالب علموں کی فلاح کے لیے فنڈز فراہم کیے گئے ہیں۔٭ پنشن کے مستقبل کے اخراجات کے واجبات پورا کرنے کے لیے پنشن فنڈ کا قیام کیا جائے گا۔پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام٭ نئے مالی سال کے لیے وفاقی ترقیاتی پروگرام کے لیے 1,150 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ جبکہ صوبوں کے ترقیاتی پروگرام کا حجم 1,559 ارب روپے ہے۔ اس طرح قومی سطح پر ترقیاتی پروگرام کا حجم 2,709 ارب روپے ہوگا۔
یہ رقم مجموعی قومی پیداوار کا صرف 2.6 فیصد ہے۔٭ 80 فیصد مکمل ہونے والے منصوبوں کو مکمل کرنے پر توجہ دی جائے گی تاکہ جون 2024 تک ان کی تکمیل کی جا سکے۔٭ براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے اور جدید ترین بنیادی ڈھانچہ کی فراہمی کے لیے پی ایس ڈی پی کا 52 فیصد حصہ مختص کیا گیا ہے۔٭ بنیادی ڈھانچہ کے شعبے میں ٹرانسپورٹ اور مواصلات کے لیے مجوزہ مختص رقم 267 ارب روپے (جو کل حجم کا 28 فیصد ہے)،پانی کے شعبہ کیلئے مختص رقم 100 ارب روپے (11 فیصد) ہے۔٭ توانائی کے شعبے کیلئے مجوزہ مختص رقم 89 ارب روپے (کل مختص رقم کا 9 فیصد ہے)، فزیکل پلاننگ اینڈ ہاسنگ کیلئے مجوزہ مختص رقم 43 ارب روپے یعنی کل مختص رقم کا 4 فیصد ہے۔
٭ پاکستان کے مختلف علاقوں کی متوازن ترقی کیلئے 108 ارب روپے تجویز کئے گئے ہیں، جن میں سے 57 ارب روپے خیبر پختونخواکے ضم شدہ اضلاع کیلئے، 325 ارب روپے آذادجموں وکشمیر کیلئے اور 28.5 ارب روپے گلگت بلتستان کیلئے رکھے گئے ہیں تاکہ ان علاقوں کی ترقی کو ملک کے دیگر علاقوں کے نزدیک لایا جا سکے۔٭ خصوصی اقتصادی زونز کی تیز رفتار تکمیل کی نگرانی اورسی پیک کے تحت مختلف منصوبوں کی بحالی۔٭ موسمیاتی تبدیلی اور قدرتی آفات کے اثرات کم کرنے کیلئے ملک کی تعمیرنو اور بحالی کیلئے ترتیب دیئے گئے فریم ورک کے تحت وضع کردہ حکمت عملیوں اوررفائیوز ایز پلانزکا نفاذ۔
٭ سماجی شعبے کی ترقی کیلئے 244 ارب روپے رکھے گئے ہیں جس میں تعلیم بشمول اعلی تعلیم کیلئے 82 ارب روپے، صحت کے شعبہ کیلئے 26 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔٭ سائنس اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کیلئے 34 ارب روپے تجویز کئے گئے ہیں جبکہ پیداواری شعبوں (صنعت معدنیات، زراعت) کیلئے 50 ارب روپے رکھنے کی تجویز ہے۔٭ نوجوانوں کی فلاح، سپورٹس اور سکلز ڈویلپمنٹ کی طرف حکومت خاص توجہ دے رہی ہے تاکہ نوجوانوں کو عملی زندگی کیلئے تیار کیا جا سکے۔٭ بلوچستان کے منصوبوں پر خصوصی توجہ تاکہ اس خطے میں دیگر علاقوں کی نسبت فرق کو ختم کیا جا سکے۔توانائی٭ بجلی کی پیداوار، ترسیل اور تقسیم کی بہتری کے لیے 107 ارب روپے کی رقم مہیا کی گئی ہے۔ ملک میں بجلی کی پیداواری صلاحیت 41 ہزار میگاواٹ تک پہنچ چکی ہے۔
٭ بجلی کے شعبے میں کوئلے سے چلنے والے جام شورو پاور پلانٹ ( 1200 میگاواٹ) کی تکمیل کے لیے اگلے مالی سال میں 12 ارب روپے کی رقم مہیا کی جائے گی۔٭ پاکستان اور تاجکستان کے درمیان 500 کے وی ٹرانسمیشن لائن کے منصوبے کو آگے بڑھانے کے لیے 16 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔٭ این ٹی ڈی سی کے موجودہ گرڈ سٹیشنز کی استعداد میں بہتری لانے کے لیے 5 ارب روپے، سکی کناری، کوہالہ اور محالہ ہائیڈرو پلانٹ سے بجلی کی ترسیل کے لیے 13 ارب روپے اور داسو ہائیڈرو پاور پلانٹ سے بجلی کی ترسیل کے لیے 6 ارب روپے فراہمی کی تجویز پیش کی گئی ہے۔آبی وسائل:٭ پچھلے سال مہمند ڈیم کی تکمیل کے لیے 12 ارب روپے فراہم کیے گئے، اگلے مالی سال میں بھی اس منصوبے کے لیے 10 ارب 50 کروڑ روپے کی رقم مختص کی جا رہی ہے۔
٭ اسی طرح 2160 میگاواٹ استعداد کے داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کے لیے ترجیحی بنیادوں پر تقریبا 59 ارب روپے کی فراہمی یقینی بنائی جائے گی۔٭ دیامیر بھاشا ڈیم کے لیے 20 ارب روپے فراہم کیے جائیں گے۔٭ دیگر اہم منصوبوں میں 969 میگا واٹ کے نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کے لیے 4 ارب 80 کروڑ روپے، تربیلا ہائیڈرو پاور کی استعداد میں اضافے کے لیے 4 ارب 45 کروڑ روپے اور وارسک ہائیڈرو الیکٹرک پاور سٹیشن کی بحالی کے لیے 2 ارب 60 کروڑ روپے کی رقم فراہم کی جائے گی۔
٭ ان منصوبوں سے زرعی شعبہ کے لیے پانی کی فراہمی اور سستی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوگا۔٭ کراچی میں پینے کے پانی کی فراہمی کو بہتر بنانے کے لیے کے فورگریٹر واٹرسپلائی سکیم کے لیے بھی 17 ارب 50 کروڑ روپے کی رقم مہیا کی جائے گی ۔ٹرانسپورٹ اور مواصلات:٭ شاہراہوں اور دیگر مواصلاتی سہولتوں کے لیے ترقیاتی بجٹ میں 161 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔سماجی شعبہ :٭ پاکستان پائیدارترقیاتی اہداف کو حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ اگلے مالی سال میں اس مقصد کے لیے 90 ارب روپے کی رقم تجویز کی گئی ہے۔