اسلام آباد (عکس آن لائن)امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ موجودہ حکومت نے مسئلہ کشمیر کے حوالہ سے کوئی کام ہی نہیں کیا۔ 18ماہ ہو گئے موجودہ حکومت نے ایک دن بھی تمام سیاسی جماعتوں کو کشمیر کے مسئلہ پر نہیں بلایا کہ کیا کرنا چاہئے اور کیا نہیں کرنا چاہئے ، اسٹیبلشمنٹ پی ٹی آئی، (ن)لیگ اور پی پی کا ساتھ دیتی ہے اوروہ ان کو لاتے ہیں اوران کو مواقع دیتے ہیں اور کبھی بھی اس ملک میں آزادنہ الیکشن نہیں ہوا۔ جب بھی ملک میں آزادنہ الیکشن ہوں گے جماعت اسلامی ضرور آئے گی ۔ان خیالات کا اظہار سینیٹر سراج الحق نے نجی ٹی وی سے انٹرویو میں کیا۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے مسئلہ کشمیر کے حوالہ سے کوئی کام ہی نہیں کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر احکومت کوئی پانچ، چھ کام کرتی تو ہم کہتے کہ اس نے 100میں سے پانچ کام کئے اور 95نہیں کئے تاہم حکومت نے تو پہلا قدم بھی نہیں اٹھایا، مسئلہ کشمیر کے حوالہ سے اقوام متحدہ میں ذوالفقار علی بھٹو، میاں محمد نوازشریف، ضیاء الحق اور ہر حکمران نے تقریر کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 27ستمبر2019کو وزیر اعظم عمران خان نے جو تقریر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کی ہے 27ستمبر کے بعد وہ تقریر خود عمران خان کو ڈھونڈ رہی ہے کہ وہ آدمی کہاں گیا جس نے یہ تقریر کی اور یہ الفاظ ادا کئے، یہ وعدے کئے اور یہ اعلانات کئے ۔
عمران خان کی واپسی کے بعد جتنے بھی ان کے اقدامات ہیں و ہ اس تقریر کے الٹ ہیں، اس لئے کہ انہوں نے خود ہی کہہ دیا کہ جو ایل او سی کی طرف جائے گا وہ پاکستان کا غدار ہو گا۔ عمران خان کی بات نہیں ، پوری حکومت کے پاس کوئی روڈمیپ نہیں اور لائحہ عمل نہیں ۔ انہوں نے کہا کہ پہلا کام یہ ہے کہ کشمیر کی آزادی کے لئے پاکستان کو مستحکم کرنا ضروری ہے۔ کیا موجودہ حکومت نے پاکستان کو معاشی لحاظ سے مستحکم کیا یا کمزور کیا؟مستحکم کرنے کے لئے پوری وحدت اور یکجہتی ہونی چاہئے ، کیا موجودہ حکومت میں وحدت اور یکجہتی قوم میں ہے یا وہ آپس میں دست و گریبان ہے؟ ۔انہوں نے کہا کہ قومی یکجہتی کی ضرورت ہے اور پھر کشمیر کاز کے لئے کشمیری قیادت کو آگے لانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ خود اپنے کیس کو اور اپنا مسئلہ دنیا کے سامنے بیان کریں، 18ماہ ہو گئے موجودہ حکومت نے ایک دن بھی تمام سیاسی جماعتوں کو کشمیر کے مسئلہ پر نہیں بلایا کہ کیا کرنا چاہئے اور کیا نہیں کرنا چاہئے ،ایک دو سیاسی جماعتوں کے اجلاس ہو گئے وہ بھی اسٹیبلشمنٹ نے بلائے ، اس میں بھی باجوہ صاحب شریک تھے اور وزیر اعظم اس اجلاس میں بھی نہیں آئے جس میں کشمیر کے مسئلہ پر آصف علی زرداری بھی مووجود تھے اور میاں محمد شہباز شریف بھی موجود تھے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کو قومی یکجہتی قائم کرنا چاہئے تھی اور کشمیریوں کو موقع دیا جائے تاکہ کشمیر کا صدر، وزیر اعظم اور کشمیر کے لوگ خود جا کر ساری دنیا اور ہر فورم پر اپنی بات کریں۔انہوں نے کہا کہ جہاں بھی کوئی مسئلہ ہوتا ہے وہاں ریڈ کراس والے جاتے ہیں ، وہاں ہلال احمر والے جاتے ہیں اور جہاں بڑا مسئلہ ہو وہاں امن فوج بھیجی جاتی ہے ، چھ مہینے سے قوم محاصرہ میں ہے آپ نے او آئی سی کا اجلاس بھی مظفر آباد میں نہیں بلایا،اسلام آباد میں نہیں بلایااور خود ہی کہا کہ اگر مودی کا میاب ہوا تو مسئلہ حل ہوا، اس لئے اس حکومت کے آنے کے بعد مسئلہ کشمیر کے حوالہ سے جو ہمارے دوست ممالک تھے اب وہ بھی ہمارے ساتھ نہیں ہیں اور سوائے ترکی اور ملائیشیا کے کسی نے بھی بین الاقوامی سطح پر ہمارا ساتھ نہیں دیا۔انہوں نے کہا کہ پرویز مشرف کے دور میں بھارتی آرمی اور حکومت نے جو باڑ لگائی ہے اب اس حکومت پاکستان کا فرض ہے کہ وہ اس باڑ کو ہٹا دے اور دیوار برلن کو گرا دے تاکہ مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کے درمیان جوبرلن کی دیوار ہے وہ ختم ہو جائے۔ انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان نے دھرنے کا فیصلہ خود کیا تھا اور خود ہی آگئے اور خود ہی بیٹھ گئے اور خود ہی تشریف لے گئے۔ میرے ساتھ مولانا مولانا فضل الرحمان نے بات کی اور میں نے کہا مولانا پہلے پروگرام مجھے بتایا جائے کہ اگر اس حکومت کو گرانا ہے تو پھر لانا کس کو ہے، اگر اس حکومت کے گرانے کا مقصد ان ہاؤس تبدیلی ہے تو اس کا آسان راستہ یہی ہے کہ کوئی اور شاہ محمود بیٹھے گا یا ترین صاحب آئے گا اور نظام تو یہی رہے گا، اس لئے پہلے نظام پر اتفاق کرلیں کہ اگر یہ نظام ختم ہوتا ہے تو کیا آپ مارشل لاء کے لئے راستہ ہموراکرتے ہیں یا دوبارہ پیپلز پارٹی یا نواز شریف کے لئے راستہ ہموار کرتے ہیں ، اس لئے ہم نے اس وقت بھی کہا تھا کہ متبادل نظام پر پہلے یکسوئی ہو۔
انہوں نے کہا کہ جو پہلے الیکشن ہوا ہے اس میں جو لائے گئے ہیں وہ خود اعتراف کر رہے ہیں کہ ہمیں لایا گیا اور ہمیں حکومت پر بٹھایا گیا، وہ تو آئے نہیں لائے گئے ہیں، وہ خود کہہ رہے ہیں اور اعتراف کررہے ہیں، اس لئے ملک میں جمہوریت آزاد کب رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت گرانا آسان کام ہے اور گرائی جاسکتی ہے لیکن اصل کام یہ ہے ایک حکومت کے گرانے کے بعد اچھی حکومت کیسے قائم ہو جائے۔ اصل بات یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ پی ٹی آئی، (ن)لیگ اور پی پی کا ساتھ دیتی ہے اوروہ ان کو لاتے ہیں اوران کو مواقع دیتے ہیں اور کبھی بھی اس ملک میں آزادنہ الیکشن نہیں ہوا۔ جب بھی ملک میں آزادنہ الیکشن ہوں گے جماعت اسلامی ضرور آئے گی اور جب بھی آزادنہ الیکشن ہو گا جماعت اسلامی کو ایک بڑی عوامی قوت ملے گی اوربڑی پوزیشن ملے گی۔ جب بھی لوگوں کو آزادانہ طریقہ سے رائے استعمال کرنے کا موقع ملے گا تو جماعت اسلامی ایک عوامی اور ایک بڑی جماعت کے طور پر ابھرے گی۔