اسلام آباد(عکس آن لائن)نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے افغانستان میں سیاسی اور اقتصادی استحکام کیلئے عالمی کوششوں کی حمایت جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ افغان عوام اور ان کی قیادت پر منحصر ہے کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں،
تاپی جیسے منصوبوں سے علاقائی روابط کو فروغ ملے گا اور پورے خطے کو یکساں فائدہ حاصل ہو گا، آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات کو یقینی بنانے کیلئے الیکشن کمیشن کو ہر ممکن تعاون فراہم کر رہے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں اظہار خیال کرتے ہوئے کیا۔
انہوں نے کہا کہ وہ افغانستان یا افغان عوام کو پاکستان کیلئے کوئی خطرہ نہیں سمجھتے، افغانوں کی اپنی ثقافت اور اپنی سرزمین ہے اور مختلف وابستگیوں کی وجہ سے مختلف ممالک کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اور پاکستان کو توقع تھی کہ افغان سرزمین سے کوئی خطرہ یا نقصان نہ ہو۔ پاکستان نے دہشت گرد عناصر کی موجودگی اور دہشت گردی کی کارروائیوں میں افغان سرزمین کے استعمال کے حوالے سے طالبان کی عبوری حکومت کو اپنے تحفظات سے بہت واضح طور پر آگاہ کیا تھا اور انہیں اس کا ادراک تھا۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان کو خطے میں ایک اہم مقام حاصل ہے اور ایک پڑوسی کے طور پر پاکستان وہاں سیاسی اور اقتصادی استحکام کیلئے تمام عالمی کوششوں کی حمایت کرکے اس اہمیت کو بڑھانا چاہتا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سوات اور ضرب عضب آپریشن کے بعد کالعدم ٹی ٹی پی کے دہشت گرد عناصر افغانستان چلے گئے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کا آئین بالکل واضح ہے اور جو بھی مسلح بغاوت کو ترجیح دے گا اسے تکفیری سمجھا جائے گا جیسا کہ علمائے کرام نے کہا تھا۔
انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ ریاست ایسے گروپوں سے مذاکرات نہیں کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہم افغان حکومت سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ ان کی سرزمین سے پاکستان کو کوئی نقصان یا خطرہ نہیں ہونا چاہئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ میگا ریجنل کنیکٹیویٹی پراجیکٹس جیسے تاپی اور دیگر منصوبے ہیں ان سے دونوں ممالک اور پورے خطے کو یکساں طور پر فائدہ پہنچے گا۔ غیر قانونی تارکین وطن کی ان کے وطن واپسی کے بارے میں انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ کوئی حل نہیں ہے اور ایک دستاویز کا نظام حتمی ہے۔
ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اپنی نگران حکومت کے مختصر دور میں انہوں نے ملک کو مختلف چیلنجز بالخصوص معاشی مسائل سے نکالنے کی کوشش کی۔ انہوں نے کہا کہ جب انہوں نے حکومت سنبھالی تو یہ ایک مشکل کام تھا کیونکہ ملک کو اپنے جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے مختلف دبائو کا سامنا تھا اور ملک کو پیچیدہ اقتصادی چیلنج درپیش تھا تاہم انہوں نے کہا کہ وہ ادارہ جاتی تعاون کی وجہ سے چیزوں کو ٹھیک کرنے میں کامیاب ہوئے۔
انہوں نے اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا کہ ان کی کوششوں کے بہت اچھے نتائج برآمد ہوئے ہیں کیونکہ ملک اب صحیح منزل کی طرف بڑھ رہا ہے۔ نگراں وزیراعظم نے کہا کہ ملک میں انتخابات کے انعقاد کیلئے الیکشن کمیشن کی معاونت کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی مبصرین اور غیر ملکی میڈیا انتخابات کی نگرانی کریں گے اور اس کی رپورٹنگ کریں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ نگران سیٹ اپ کی بنیادی ذمہ داری آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات کو یقینی بنانا تھی تاکہ لوگ اپنی حکومت کو منتخب کریں۔ ایک سیاسی جماعت کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ انتظامی مسائل لگتے ہیں اور واضح طور پر کہا کہ حکومت نے کسی جماعت کو کوئی ہدایت نہیں دی، اس کے علاوہ ای سی پی اور عدلیہ کام کر رہی ہے اور جس کو بھی شکایت ہو وہ ان سے رابطہ کر سکتا ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ وہ بلوچستان اور صوبہ خیبر پختونخوا میں امن و امان کی صورتحال کے بارے میں پہلے ہی اپنے جذبات اور خیالات سے آگاہ کر چکے ہیں اور اپنے موقف پر قائم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امن و امان کی صورتحال کو انتخابات میں تاخیر سے جوڑ کر اس پر سازشی نظریات موجود ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان نے کبھی بھی ایران کیلئے مسائل پیدا نہیں کئے اور ایران کی جانب سے میزائل حملے سے انہیں ابتدائی طور پر صدمہ پہنچااور انہوں نے اپنے جذبات ایران تک پہنچائے جس کے بعد بھرپور جواب دیا گیا۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ میکنزم بحال ہو جائے گا۔ نگراں وزیراعظم نے اعلان کیا کہ جب بھی پاکستان کی خودمختاری پر کوئی حملہ ہوا تو اس کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ جامعات جیسے تعلیمی ادارے صحت مند مباحثہ کے انعقاد کے لیے بہترین فورم ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ سوشل میڈیا پر ان پر تنقید کے باوجود انہوں نے تحمل سے کام لیا، تحفظات کو مہذب الفاظ میں بیان کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ معاشرے میں ہسٹیریا جذبات جیسے جذبات پھیل چکے ہیں اور اسے معمول پر آنے میں وقت لگے گا۔