کراچی(عکس آن لائن)ماہرین نے کہاہے کہ مصنوعی ذہانت آئندہ چند برسوں کے دوران 80 فیصد انسانی ملازمتوں کی جگہ لے سکتی ہے۔دنیا بھر میں مصنوعی ذہانت کے بڑھتے ہوئے استعمال نے انسانی روزگار کیلئے سنگین خطرات پیدا کردیئے ہیں۔ امریکی سائنسدان اور مشہور محقق 56 سالہ بین گورٹسل کو مصنوعی ذہانت یا آرٹیفیشل انٹیلجنس کے شعبے میں گرو سمجھا جاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آئندہ چند برسوں میں مصنوعی ذہانت 80 فیصد انسانی ملازمتوں کی جگہ لے سکتی ہے۔بین گورٹسل سنگولیرٹی نیٹ نامی کمپنی کے چیف ایگزیکٹو اور شریک بانی ہیں، یہ ایک ایسا تحقیقی گروپ ہے جو آرٹیفیشل جنرل انٹیلی جنس یا انسانی فکری صلاحیتوں کی حامل مصنوعی ذہانت تخلیق کرنے کیلئے بنایا گیا تھا۔
بین گورٹسل نے ایک خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے انسانی روزگار کو لاحق سنگین خطرات کے باوجود ان کوششوں کی مذمت کی ہے، جو حال ہی میں مصنوعی ذہانت کو روکنے کیلئے کی گئیں ہیں۔مصنوعی ذہانت کتنی جلدی انسان کی طرح فکری یا سوچنے سمجھنے کی صلاحت حاصل کرسکتی ہے؟، اس سوال کے جواب میں بین کا کہنا تھا کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ مشینیں واقعی لوگوں کی طرح سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رکھیں، ہوشیار ہوں اور نامعلوم صورتحال سے نمٹنے میں اتنی ہی چست ہوں جتنے کہ انسان ہیں تو انہیں اپنی تربیت اور پروگرامنگ سے آگے جاکر مسائل حل کرنے کے قابل ہونا چاہئے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ابھی ہم وہاں تک نہیں پہنچے لیکن مجھے یقین ہے کہ ہم یہ سفر کئی عشروں کی بجائے صرف برسوں میں طے کرلیں گے۔حال ہی میں مصنوعی ذہانت کے چیٹ جی پی ٹی جیسے پروگرام سامنے آئے ہیں، کئی ناقدین اس شعبے میں تحقیق پر کم از کم 6 ماہ کی پابندی کا مطالبہ کررہے ہیں، تاہم بین گورٹسل کا کہنا تھا کہ ایسی کسی بھی پابندی کی کوئی ضرورت نہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ بہت ہی دلچسپ اے آئی سسٹمز ہیں لیکن یہ انسان کی طرح فکری صلاحیت نہیں رکھتے، یہ پیچیدہ اور کثیر الجہتی دلائل دینے کے قابل نہیں، یہ سسٹمز اپنے تربیتی ڈیٹا کے دائرہ کار سے باہر نکل کر نئی چیزیں ایجاد نہیں کرسکتے۔
مستقبل میں انسانی ملازمتوں کے حوالے سے بین گورٹسل کا کہنا تھا کہ اصل میں مصنوعی ذہانت سے انسانوں کی ملازمتوں کو کوئی بہت بڑا خطرہ نہیں ہے، کیونکہ بنیادی طور پر اتنے لوگ ہی نہیں ہیں جو نرسنگ اور نرسنگ اسسٹنٹ جیسی نوکریاں کرنا چاہتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ گھریلو کام کاج اور تعلیم کے شعبے میں روبوٹس کا استعمال کارآمد رہے گا۔