کراچی (عکس آن لائن) ایپی لیپسی فاؤنڈیشن پاکستان کی صدر، نیورولوجسٹ اور ماہر امراض مرگی ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے کہا ہے کہ ایپی لیپسی ایک قابل علاج مرض ہے جسے پاکستان میں مرگی کے نام سے جانا جاتا ہے۔اس مرض کی بہت ساری اقسام ہیں۔ جس میں سے ایک تو وہ قسم ہوتی ہے جو بڑے دوروں پر مشتمل ہوتی ہے جس میں پورا جسم تشنج کی طرح اکڑ جاتا ہے ، جھٹکے کھاتا ہے، آنکھیں چڑھ جاتی ہیں، منہ سے جھاگ نکلنے لگتا ہے۔ اس قسم کے دوروں کو ’’جنرلائزڈ ٹانک کلونک سیزر‘‘ (generalized tonic-clonic seizures) کہتے ہیں۔
خالی فضا میں ’’اسٹارنگ اسپیلس‘‘ (staring spells) یعنی چند لمحوں کیلئے گم صم ہوجانابھی مرگی کے مرض کی ایک قسم ہے۔مریض کی اس حالت کو ’’ایبسنس سیزر‘‘ (absence seizures) کہتے ہیں۔ اسی طرح چکر آنا اور کنفیوژ ہونا ، منہ چلانا اور بے خود ہوجانا ، ہاتھ یا پاؤں کا جھٹکے کھانا وغیرہ بھی مرگی کی اقسام میں شامل ہے۔اگرچہ یہ مرض دیکھنے میں بڑا خوفناک لگتا ہے مگر یہ قابل علاج مرض ہے۔’’عالمی یوم مرگی‘‘ کے موقع پر ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ مرگی کوئی آسیبی اثر کا مرض نہیں ہے، کوئی جادو، چڑیل یا جن کا اثر بھی نہیں ہے۔ یہ مرض ادویات سے بالکل کنٹرول میں آ جاتا ہے۔ افسوس یہ ہے کہ ہمارے وطن میں یہ ادویات بڑی مشکل سے اور بہت مہنگی ملتی ہے۔اگر اس مرض کی صحیح تشخیص کی جائے اور مریض کو صحیح وقت پر صحیح ادویات مل جائے تو یہ مرض مکمل طور پر ختم ہوجاتا ہے۔ علاج میں جتنی تاخیر ہوتی ہے اور مرگی کے دورے جتنے بڑھتے جاتے ہیں ، علاج اتنا ہی لمبے عرصے پر محیط ہو جاتا ہے۔ ’
’انٹرنیشنل ایپی لیپسی ڈے‘‘ (International Epilepsy Day) پر ہماری حکومت سے اپیل ہے کہ مرگی کے مرض کی ادویات کی قیمتیں کم کی جائیں، ان پر سبسڈی دی جائے اور ادویات کی قلت کے مسئلہ کو ختم کیا جائے جو کہ پاکستان میں معالجین اور مریضوں کے لئے سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے مزید کہا کہ میں بتا سکتی ہوں کہ میرے کتنے ہی مریض بے حد پریشان ہیں۔ جو ادویات وہ لے رہے تھے ، وہ اچانک سے ملنا بند ہو گئیں یا مارکیٹ میں ان کی قلت (shortage) ہوگئی یا پھر وہ ادویات بلیک میں مل رہی ہیں اور جو مل رہی ہیں وہ بھی جعلی ہیں۔ میری ایک مریضہ جو سال بھر سے بالکل ٹھیک تھی ۔ دوائیاں کھانے کے باوجود اسے اچانک دورے پڑنے لگے ۔ جب میں نے اس کا ٹیسٹ کرایا تو اس کے خون میں ادویات کے اثرات نہ ہونے کے برابر تھے جس سے ثابت ہوا کہ جو ادویات بلیک میں بڑی مشکل سے چار پانچ گنا زیادہ قیمت پر ملی بھی تو اصلی نہیں تھی۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت کو چاہئے کہ اس کا فوری نوٹس لے ۔
مرگی کے مرض میں مبتلا لوگ معاشرے کے کارآمد افراد اور ملک و قوم کا سرمایہ بن سکتے ہیں۔ دوسری اہم بات یہ کہ حکومت کو جواب دینا ہوگا کہ ایک بالکل ٹھیک انسان جو کہ کام کررہا ہو اور اسے حکومت کی ناقص پالیسی کی وجہ سے ادویات مارکیٹ میں دستیاب نہ ہونے یا قلت کی وجہ سے یکدم اس کو دورہ پڑتا ہے اور اگر وہ سڑک پار کررہاہے اور کوئی گاڑی اس کے اوپر چڑھ جائے یا کام کرتے ہوئے گرجائے اوراپنی جان کھو بیٹھے یا اس کا کوئی عضو ضائع ہو جائے تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا، جواب کون دے گا اور اس کا ازالہ کیسے ہوگا؟۔ڈاکٹر فوزیہ صدیقی عالمی یوم مرگی کے موقع پر دارالصحت اسپتال اور سیلانی میڈیکل سینٹر میں سیمینارکے شرکاء سے خصوصی خطاب بھی کریں گی۔