لاہور پریس کلب الیکشن 2020 کانٹے دار مقابلہ متوقع

(لاہور عرفان الحق سے )
لاہور پریس کلب کے سالانہ انتخابات برائے سال 2020 کل بروز اتوار 29دسمبر کو ہوں گے انتخابی مہم رات گے ختم ہو گی ماضی کی طرح اس بار بھی انتخابات میں دو گروپ جرنلسٹ پینل اور پروگریسو گروپ ایک دوسرے کے مدِمقابل ہیں لیکن اس بار رائٹر گروپ اور ڈیموکریٹ گروپ نے پروگریسو گروپ کے ساتھ مل کر الیکشن میں اپنے امیدوار کھڑے کیے ہیں جب کہ گزشتہ برس پروگریسو گروپ سے علیحدگی اختیار کر کے جرنلسٹ گروپ کا ساتھ دینے والے پروگریسو لورز اس مرتبہ ایک بار پھر جرنلسٹ گروپ کے ساتھ مل کر ہی الیکشن لڑ رہا ہے پروگریسو لورز نے اپنے گروپ میں سے بابر ڈوگر کو سیکرٹری جو کہ اس سے قبل پنجاب اسمبلی پریس گیلری 2012 کے صدر کا الیکشن بھی جیت چکے ہیں اُن کو میدان میں اُتارا ہے قذافی بٹ اور حافظ فیض جو کہ گذیشتہ سال بھی پریس کلب کے جوائنٹ سیکرٹری رہ چکے ہیں ایک بار پھر سے اسی سیٹ کے امیدوار کے طور پر الیکشن لڑ رہے ہیں جبکہ اسی جرنلسٹ پینل کے صدارت کے امیدوار ارشد انصاری اس سے قبل 9بار کلب کے صدر منتخب ہو چکے ہیں اور گذیشتہ برس بھی وہ بھاری اکثریت سے اسی سیٹ سے جیت چکے ہیں جبکہ اسی گروپ کی طرف سے سینئر نائب صدر کی سیٹ پر الیکشن لڑنے والے افضال طالب اس سے پہلے بطور سیکرٹری خدمات انجام دے چکے ہیں جبکہ جرنلسٹ گروپ کی طرف سے خزانچی کی سیٹ پر الیکشن لڑنے والے نعیم حنیف اس سے قبل پی یو جے کے اعلی عہدہ پر کام کر چکے ہیں اس سے قبل وہ پریس کلب کا الیکشن لڑ چکے ہیں لیکن کامیاب نہیں ہو سکے تھے جبکہ جرنلسٹ گروپ کی طرف سے گورننگ باڈی کے امیدواروں میں عمران شیخ ،مبشر حسن،راناطاہر،شاہد چوہدری ، قاسم رضا ، میاں علی افضل ،رانا وحید حسین ، طارق مغل ،اور فرقان الہی شامل ہیں ان ممبران میں سے عمران شیخ ، شاہد چوہدری ، قاسم رضا پہلے بھی متعدد مرتبہ گورننگ باڈی ممبر کے طور پر الیکشن جیت چکے ہیں جبکہ اس گروپ کو شعبہ صحافت کے بڑے نام جناب سلمان غنی ،عارف حمید بھٹی ، رانا عظیم ،اعظم چوہدری ،آصف بٹ ،محمد اقبال چوہدری اور مُبشر لقمان کی حمایت بھی حاصل ہے
اگر جرنلسٹ گروپ کے مدِمقابل پروگریسو گروپ کے امیدوارن پر نظر دوڑائیں تو اس مرتبہ انھوں نے بہت مضبوط امیدواران کو میدان میں اتارا ہے اس گروپ کی جانب سے لیڈ کرنے والے صدر کی نشست کے امیدوار ذاہد گوگی کسی کی تعریف کے محتاج نہیں اور انھیں صحافت کی دنیا میں نہ صرف بہت عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے بلکہ وہ صحافی کمیونٹی کو درپیش مشکلات کے حوالے سے بھی بہت درد دل رکھتے ہیں پروگریسو گروپ کی طرف سے سینئر نائب صدر کی سیٹ پر حال ہی میں ڈیموکریٹ گروپ کی حمایت ملنے کے بعد اس گروپ کے لیڈر رائے حسنین طاہر کو نامزد کیا گیا ہے جو کہ اس سے قبل بھی پریس کلب کے اعلی عہدے دار رہ چکے ہیں پروگریسو گروپ نے سیکرٹری کے سیٹ پر ایک مرتبہ پھر ذاہد عابد جو کہ گذیشتہ برس بھی اسی سیٹ سے جیتے تھے اُن کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوے ایک بار پھر سے اسی سیٹ کے لیے میدان میں اُتارا ہے بلا شعبہ ذاہد عابد اپنی شرافت عجزو انکساری کی بدولت صحافیوں میں بہت مقام رکھتے ہیں اور پریس کلب کے پُرانے اور نئے ممبران اُن کی صلاحیتوں کے معترف ہیں اور وہ سیکرٹری کی سیٹ کے بہت مضبوط امیدوار ہیں پروگریسو کی طرف سے نائب صدر کی سیٹ کے امیدوار شعیب الدین جنھیں سبھی ممبر چاچو کے نام سے پکارتے ہیں ہر دل عزیز شخصیت کے طور پر جانے جاتے ہیں وہ اس سے قبل پریس کلب کے سیکرٹری بھی رہ چکے ہیں اور ایک کھرے،ایمندار راور اصول پرستی کی وجہ سے لوگ انہیں پسند کرتے ہیں رانا محمد اکرام کو اس مرتبہ اُن کی شرافت اور کلب کی ذمہ داریاں احسن طریقہ سے نبھانے کیوجہ سے جوائنٹ سیکرٹری کی سیٹ کے لیے کھڑا کیا گیا ہے اور اعجاز منظور کو صحافتی کمیونٹی کی فلاح کے کام کرنے کی وجہ سے خزانچی کی سیٹ کے لیے نامزد کر کے اُن کی خدمات کا اعتراف کیا گیا ہے جبکہ پروگریسو گروپ کی طرف سے گورننگ باڈی کے لیے حسن تیمور جھکڑ ، حسنین چوہدری ، اسد عباس ، عرفان سلیم ، سبطین علی ، محمد محی الدین ، عباد اللہ بابر بٹ ، امجد فاروق کلو ، اور عاصم امین پر بھروسہ کیا گیا ہے جبکہ اس گروپ کو خاور نعیم ہاشمی ، ماجد صاحب ، خواجہ فرخ سعید ، راجہ ریاض ، قیوم ذاہد ، شہباز میاں ، معین اظہر کی حمایت حاصل ہے
دونوں گروپ اس وقت اپنی اپنی فتح کے لیے پُر امید ہیں لیکن خیال کیا جا رہا ہے کہ پریس کلب کے گذیشتہ چند برسوں میں بننے والے نئے ممبران کے ووٹ ہی فیصلہ کُن کردار ادا کریں گے کیونکہ اگر دیکھا جائے تو نئے ممبران کے لیے فیز ٹو کا نعرہ تو دونوں گروپوں کی قیادت لگا کر الیکشن جیت چکی ہے لیکن ابھی تک کوئی بھی سوائے زبانی جمع خرچ کے اس کو پایہ تکمیل تک نہ پہنچا سکا اور اس وقت فیز ٹو کے لوگ اپنے غصہ کا اظہار کر رہے ہیں اس لیے شنید یہی ہے کہ ان کے ووٹ ہی فیصلہ کن تصور ہوں گے ۔اب جیت کس کا مقدر بنتی ہی اس کا فیصلہ کل صحافتی کمیونٹی کرئے گی ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں