پرویز مشرف

غداری کیس ،سزا سے پہلے موت پر مشرف کی لاش 3 روز تک ڈی چوک پر لٹکائی جائے، تفصیلی فیصلہ

اسلام آباد(عکس آن لائن ) سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس سننے والے تین رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس سیٹھ وقار نے فیصلے کے پیرا گراف نمبر 66 میں لکھا ہے کہ اگر پرویز مشرف انتقال کر جاتے ہیں تو ان کی لاش کو تین روز تک اسلام آباد کے ڈی چوک پر لٹکایا جائے۔

جمعرات کو اسلام آباد میں جسٹس وقار احمد سیٹھ کی سربراہی میں جسٹس شاہد فضل کریم اور جسٹس نذر محمد پر مشتمل تین رکنی خصوصی عدالت نے سابق صدر پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں سزائے موت کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا ہے۔ جسٹس وقار سیٹھ اور جسٹس شاہد فضل کریم نے فیصلہ تحریر کیا۔چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جسٹس وقار احمد سیٹھ اور لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شاہد فضل کریم نے سزائے موت سنائی جبکہ سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس نذر اللہ اکبر نے اختلافی نوٹ لکھتے ہوئے کہا کہ استغاثہ کی ٹیم غداری کا مقدمہ ثابت نہیں کرسکی۔وفاقی شرعی عدالت کے اندر قائم کی گئی خصوصی عدالت نے 17 دسمبر کو پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں سزائے موت سنائی تھی جس کا تفصیلی فیصلہ جمعرات کو جاری کیا گیا ہے۔خصوصی عدالت کے دو ججز نے پرویز مشرف کو سزائے موت دینے کی تائید کی جب کہ ایک جج نے انہیں بری کیا۔جسٹس سیٹھ وقار نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف پر سنگین غداری کا جرم ثابت ہوتا ہے لہذا انہیں سزائے موت سنائی جاتی ہے۔

تفصیلی فیصلے کے پیرا نمبر 66 میں جسٹس سیٹھ وقار نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو پرویز مشرف کو گرفتار کرکے سزا پر عمل درآمد کی ہدایت کی اور لکھا کہ اگر وہ سزا سے پہلے انتقال کر جاتے ہیں تو ان کی لاش اسلام آباد کے ڈی چوک پر تین روز تک لٹکائی جائے۔تاہم سزائے موت کی تائید کرنے والے جسٹس شاہد ملک نے جسٹس سیٹھ وقار کے تحریر کردہ اس پیراگراف یعنی پیرا نمبر 66 سے اختلاف کیا۔خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کی سزائے موت کا 169صفحات پرمشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کردیا ۔تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ جنرل (ر)پرویز مشرف نے سنگین غداری کے جرم کا ارتکاب کیا، ان پر آئین پامال کرنے کا جرم ثابت ہوتا ہے اور وہ مجرم ہیں، لہذا پرویز مشرف کو آئین توڑنے کے پانچ جرائم پر 5 مرتبہ الگ الگ سزائے موت دی جائے، قانون نافذ کرنے والے ادارے انہیں گرفتار کرکے سزائے موت پرعملدرآمد کرائیں، اگر پرویز مشرف مردہ حالت میں ملیں تو ان کی لاش کو ڈی چوک اسلام آباد میں گھسیٹا جائے اور تین دن تک لٹکائی جائے۔تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ 2013 میں شروع ہونے والا مقدمہ 2019 میں مکمل ہوا، کیس کے حقائق دستاویزی شکل میں موجود ہیں، پرویز مشرف کو دفاع اور شفاف ٹرائل کا پورا موقع دیا گیا اور عدالت نے انہیں ٹرائل کا سامنا کرنے کے متعددمواقع دیے، لیکن وہ پیش نہ ہوئے اور فرد جرم عائد ہونے کے بعد فرار کا رستہ اختیار کیا، ان کا پورے ٹرائل میں یہ موقف رہا کہ خرابی صحت اور سکیورٹی وجوہات پر پیش نہیں ہوسکتا۔خصوصی عدالت نے حکم دیا کہ پرویز مشرف کے بیرون ملک فرار میں ملوث افراد کے خلاف بھی تحقیقات کرکے قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔جسٹس شاہد کریم نے سزائے موت کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ مشرف اپنے دور میں تمام اختیارات کا سرچشمہ تھے جو آئین معطل کرنے کے بعد اپنی خواہشات پر آئین تبدیل کرتے رہے، انہوں نے آئینی اور قانونی احکامات کو آمریت نافذ کرکے ختم کیا، آرٹیکل 6 کو شامل کرنے کا مقصد مستقبل میں ڈکٹیٹرشپ کو روکنا ہے۔ جسٹس شاہد کریم نے ڈی چوک پر لاش لٹکانے کی بات سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ پرویز مشرف کو قانون سے ہٹ کر مثالی سزا دینا قانون کے برخلاف ہوگا۔عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ آرٹیکل 6 آئین کا وہ محافظ ہے جو ریاست اور شہریوں کے درمیان عمرانی معاہدہ چیلنج کرنے والوں کا مقابلہ کرتا ہے۔

پہلا یہ کہ 3نومبر 2007 کو راولپنڈی میں چیف آف آرمی اسٹاف کی حیثت سے آپ نے غیرآئینی اور غیرقانونی طریقے سے ایمرجنسی کے نفاذ کے اعلان کا حکم نامہ 2007 جاری کیا، جس سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین 1973 کو غیرآئینی اور غیرقانونی طور پر معطل کردیا گیا اور اس کے نتیجے میں آپ آئین پر اثرانداز ہوئے اور نتیجتا سنگین غداری کے جرم کے مرتکب ہوئے جو سنگین غداری(جرم) ایکٹ 1973 کے تحت قابل سزا جرم ہے۔دوسرا یہ کہ 3نومبر 2007 کو راولپنڈی میں چیف آف آرمی اسٹاف کی حیثیت سے آپ نے 2007 کے عبوری آئینی حکم نمبر ایک کا غیرآئینی اور غیرقانونی حکم جاری کیا جس نے غیرآئینی اور غیرقانونی طور پر صدر کو وقتا فوقتا اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین 1973 میں ترمیم کا اختیار دے دیا اور آئین کے آرٹیکل 9، 10، 15، 16، 17، 19 اور 25 کے بنیادی حقوق کو معطل کر کے آپ آئین پر اثرانداز ہوئے، نتیجتا سنگین غداری کے جرم کے مرتکب ہوئے جو سنگین غداری(جرم) ایکٹ 1973 کے تحت قابل سزا جرم ہے۔تیسرا یہ کہ 3نومبر 2007 کو راولپنڈی میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر کی حیثیت سے آپ نے ججوں سے حلف کا آرڈر 2007 جاری کیا جسے شیڈول میں غیرآئینی اور غیرقانونی طور پر متعارف کرایا گیا جس کے تحت ججوں کو ایمرجنسی کے نفاذ کے اعلان کی پابندی کرنی ہے کہ وہ اسی کے مطابق اقدامات کرتے ہوئے کام سر انجام دیں گے اور اس کے نتیجے میں چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان سمیت اعلی عدلیہ کے متعدد ججوں کو عہدوں سے ہٹا دیا گیا لہذا آپ آئین پر اثرانداز ہوئے اور نتیجتا سنگین غداری کے جرم کے مرتکب ہوئے جو سنگین غداری(جرم) ایکٹ 1973 کے تحت قابل سزا جرم ہے۔چوتھی بات یہ کہ 20نومبر 2007 کو راولپنڈی میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر کی حیثت سے آپ نے آئینی ترمیم آرڈر 2007 کا غیرآئینی اور غیرقانونی آرڈر5 جاری کیا جس کے نتیجے میں آرٹیکل 175، 186(اے)، 198، 218، 270(بی) اور 270(سی) میں غیرآئینی اور غیرقانونی طور پر ترمیم اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین 1973 میں آرٹیکل 270اے اے کا اضافہ کر کے آپ آئین پر اثرانداز ہوئے اور نتیجتا سنگین غداری کے جرم کے مرتکب ہوئے جو سنگین غداری(جرم) ایکٹ 1973 کے تحت قابل سزا جرم ہے۔پانچویں بات یہ کہ 14دسمبر 2007 کو راولپنڈی میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر کی حیثیت سے آپ نے آئینی ترمیم آرڈر 2007 کا آرڈر(6(دوسری ترمیم) کا غیرآئینی اور غیرقانونی کا حکم نامہ جاری کر کے غیرآئینی اور غیرقانونی طور پر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین 1973 میں ترمیم کی اور آپ آئین پر اثرانداز ہوئے اور نتیجتا سنگین غداری کے جرم کے مرتکب ہوئے جو سنگین غداری(جرم) ایکٹ 1973 کے تحت قابل سزا جرم ہے۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ سنگین غداری کا ٹرائل ان لوگوں کے لیے آئین کی ضرورت ہے جو کسی بھی وجہ سے آئین کو کمزور کریں یا اسے کمزور کرنے کی کوشش کریں، لہذا یہ عدالت استغاثہ کی جانب سے ملزم کے خلاف پیش کیے گئے ناقابل تردید، ناقابل تلافی اور ناقابل اعتراض ثبوتوں کو دیکھنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچی کہ واقعی ملزم نے جرم کیا ہے اور وہ مثالی سزا کا مستحق ہے۔عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ مقدمے کا سامنا کرنے والے ملزم کے عمل اور برتا =سے یہ واضح ہے کہ اس مقدمے کی شروعات سے ہی ملزم نے اس میں تاخیر، پیچھے ہٹنے اور حقیقت میں اس سے بچنے کے لیے مستقل کوشش اور ضد کی.تفصیلی فیصلے کیمطابق اگر ایک لمحے کے لیے یہ تصور کیا جائے کہ کور کمانڈرز سمیت اعلی فوجی کمانڈ اس میں ملوث نہیں تو پھر کیوں وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے 1973 کے آئین کا دفاع اور تحفظ کرنے میں ناکام رہے اور ایک وردی میں موجود شخص کو نہ روکا، اس وقت کی کورکمانڈرز کمیٹی ساتھ تمام دیگر وردی والے افسران جنہوں نے انہیں ہر وقت تحفظ فراہم کیا وہ ملزم کے عمل اور قدم میں مکمل اور برابر کے شریک ہیں۔جسٹس وقار احمد سیٹھ کے تحریر کردہ فیصلے میں کہا گیا کہ ایک آمر صرف اس وقت تک اقتدار میں رہ سکتا ہے جب تک وہ اپنے عوام کی مرضی کو تہہ وبالا نہیں کرے، آئین کے ذریعے قائم کردہ حکومت اور ریاست کے دیگر اداروں کے فرائض پر قبضہ کرنا آئین کو پامال کرنے کے مترادف ہے۔

عدالتی فیصلے میں لکھا گیا کہ عدلیہ پر اثر انداز ہونے کی کوشش (جیسا کہ انہیں کام کرنے سے روکنا/ یا ان سے اضافی آئینی حلف لینا) آئین کو پامال کرنے کے مترادف ہے۔تفصیلی فیصلے کے مطابق یہ انصاف کے حق میں بہتر ہوگا کہ مفرور ملزم کو فرار کرانے میں سہولیات فراہم کرنے میں (اگر کوئی)ملوث ہے توانہیں بھی قانون کے دائرے میں لایا جائے اور (اگر کوئی) مجرمانہ اقدامات ہیں تو ان کی بھی تحقیقات کر کے قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔جسٹس نذر اکبر نے اختلافی نوٹ تحریر کرتے ہوئے لکھا کہ انصاف و قانون کے بارے میں عاجزانہ قانونی فہم کے ساتھ میں نے اپنے بھائی وقار احمد سیٹھ کی جانب سے لکھے گئے مجوزہ فیصلے کا انتہائی احترام کے ساتھ جائزہ لیا اور میں اپنے قابل بھائیوں کی اکثر آرا سے اختلاف کرتا ہوں۔جسٹس نذر اکبر نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ 3 نومبر 2007 کو پرویز مشرف کے ایمرجنسی نافذ کرنے کے اقدام کو مذکورہ تاریخ پر آئین کے آرٹیکل 6 کی خلاف ورزی کے طور پر نہیں دیکھا جاسکتا۔اختلافی نوٹ میں کہا گیا کہ وکیل یہ سمجھے میں ناکام رہے کہ جب یہ جرم کیا گیا، اس وقت آئین کی منسوخی یا کسی ادارے کے اختیارات پر اثرانداز ہونے کے سوا کسی بھی فرد کے کسی بھی عمل پر آرٹیکل6 لاگو نہیں ہوتا تھا۔اس وقت آئین کی منسوخی یا کسی ادارے کے اختیارات پر اثرانداز ہونے کو ہی سنگین غداری تصور کیا جاتا تھا۔ساتھ ہی اختلافی نوٹ میں لکھا گیا کہ 20اپریل 2010 تک آئین کے آرٹیکل 6 کی تعریف میں آئین کی معطلی اور عبوری معطلی کے الفاظ استعمال نہیں کیے گئے تھے اور انہیں سنگین غداری کے مبینہ جرم کے ارتکاب کے ڈھائی سال بعد 18ویں ترمیم کے ذریعے آئین میں متعارف کرایا گیا۔اختلافی نوٹ میں جسٹس نذر اکبر نے لکھا کہ سال 2010 میں 18ویں آئینی ترمیم کے بعد سنگین غداری کی تعریف اپڈیٹ کی گئی تھی۔انہوں نے لکھا کہ آئین کے آرٹیکل6 میں جرم کے طور پر سنگین غداری کو بتایا گیا ہے لہذا اس کے مفہوم کو سمجھے بغیر یہ عدالت ایک شفاف فیصلہ جاری نہیں کر سکتی۔جسٹس نذر اکبر کے مطابق اس وجہ سے استغاثہ کے دونوں قابل وکلا اور میرے دونوں قابل بھائیوں نے سنگین غداری کے الفاظ کی تعریف کے لیے آکسفورڈ ڈکشنری کے 10ویں ایڈیشن میں دیے گئے ‘سنگین غداری’ کے معنی پر انحصار کیا ہے۔

یاد رہے 3 نومبر 2007 کو پرویز مشرف نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے آئین معطل اور میڈیا پر پابندی عائد کردی تھی جبکہ چیف جسٹس پاکستان افتخار چوہدری سمیت سپریم کورٹ اور تمام ہائی کورٹس کے جج صاحبان کو گھروں میں نظربند کردیا تھا۔پاکستان میں آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت آئین کو توڑنا اور اس کام میں مدد کرنا ریاست سے سنگین بغاوت کا جرم ہے جس کی سزا پھانسی ہے۔سابق وزیراعظم نوازشریف نے 26 جون 2013 کو انکوائری کیلیے وزارت داخلہ کو خط لکھا جس پر وزارت داخلہ نے ایف آئی اے کی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی جس نے16نومبر2013 کو رپورٹ جمع کرائی، لا ڈویژن کی مشاورت کے بعد13 دسمبر 2013 کو پرویز مشرف کے خلاف شکایت درج کرائی گئی جس میں ان کے خلاف سب سے سنگین جرم متعدد مواقع پر آئین معطل کرنا بتایا گیا۔پرویز مشرف کیخلاف سنگین غداری کا مقدمہ6سال سے زائد چلا۔ وہ صرف ایک دفعہ عدالت میں پیش ہوئے اور پھر ملک سے باہر چلے گئے۔ خصوصی عدالت کی متعدد دفعہ تشکیل نوکی گئی اور ججز بدلتے رہے۔ جسٹس فیصل عرب، جسٹس مظہرعالم میاں خیل اور جسٹس طاہرہ صفدر سمیت 7 ججز نے مقدمہ سنا۔

علاوہ ازیں 17 دسمبر کو دیے گئے مختصر عدالتی فیصلے پر سابق صدر کا ردعمل سامنے آیا تھا اور انہوں نے کہا تھا کہ ان کے خلاف کچھ لوگوں کی ذاتی عداوت کی وجہ سے کیس بنایا اور سنا گیا جس میں فرد واحد کو ٹارگٹ کیا گیا۔عدالت کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے پرویز مشرف نے ایک ویڈیو پیغام میں کہا تھا کہ ‘خصوصی عدالت نے میرے خلاف آرٹیکل 6 کا جو فیصلہ سنایا وہ میں نے ٹی وی پر پہلی بار سنا، یہ ایسا فیصلہ ہے جس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی کہ مدعا علیہ اور نہ اس کے وکیل کو اپنے دفاع میں بات کرنے کی اجازت نہیں ملی۔’انہوں نے کہا کہ ‘میں نے یہ تک کہا تھا کہ اگر کوئی خصوصی کمیشن تشکیل دیا جائے جو یہاں آئے تو میں اسے اپنا بیان ریکارڈ کرانے کے لیے تیار ہوں، اس کو بھی نظر انداز کیا گیا۔’

پرویز مشرف کا کہنا تھا کہ ‘میں اس فیصلے کو مشکوک اس لیے کہتا ہوں کہ اس کیس کی سماعت میں شروع سے آخر تک قانون کی بالادستی کا خیال نہیں رکھا گیا، بلکہ یہ بھی کہوں گا کہ آئین کے مطابق اس کیس کو سننا ضروری نہیں ہے، اس کیس کو میرے خلاف صرف کچھ لوگوں کی ذاتی عداوت کی وجہ سے بنایا اور سنا گیا اور اس میں فرد واحد کو ٹارگٹ کیا گیا اور ان لوگوں نے ہدف بنایا جو اونچے عہدوں پر فائز ہیں اور اپنے عہدے کا غلط استعمال کرتے ہیں۔’ان کا کہنا تھا کہ ‘قانون کا مایوس کن استعمال، فرد واحد کو نشانہ بنانا اور واقعات کا اپنی منشا کے مطابق چنا کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ لوگ کیا چاہتے ہیں۔’

اپنا تبصرہ بھیجیں