اشرف غنی ملاقات

عمران خان اشرف غنی ملاقات ،تشدد کے خاتمے کیلئے مشترکہ کوششوں کو تیز کرنے پر اتفاق

کابل (عکس آن لائن)پاکستان اور افغانستان نے قریبی تعاون اور انٹیلی جنس شیئرنگ کے ذریعے افغانستان میں دہشتگردی کے واقعات کے حالیہ سلسلے کو کم کرنے کیلئے اپنی مشترکہ کوششوں کو تیز کرنے پر اتفاق کیا ہے جبکہ وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ طاقت سے کوئی بھی مسئلہ حل نہیں ہوتا ، پاکستان کی حکومت اور افغانستان کے عوام امن چاہتے ہیں اور افغانستان میں تشدد کی کمی کیلئے پاکستان جو کرسکا وہ کریگا، دونوں ممالک کے درمیان مسلسل رابطے رہنے چاہئیں ۔

جمعرات کو وزیراعظم عمران خان افغان صدر اشرف غنی کی خصوصی دعوت پر ایک روزہ دورے پر کابل پہنچے ،کابل ایئرپورٹ پر وزیراعظم عمران خان اوروفد کا استقبال افغان وزیرخارجہ محمد حنیف اتمر نے کیا جس کے بعد وزیر اعظم عمران خان افغان صدارتی محل پہنچے جہاں افغان صدر اشرف غنی نے ان کا استقبال کیا اس موقع پر انہیں گارڈ آف آنر بھی پیش کیا گیا۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، مشیر تجارت عبد الرزاق داؤد، ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید، سیکرٹری خارجہ سہیل محمود اورافغانستان میں پاکستان کے نمائندہ خصوصی سمیت دیگر اہم شخصیات بھی وزیر اعظم کے ہمراہ تھیں ۔ بعد ازاں وزیراعظم عمران خان نے افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات کی جس میں انہوں نے دوطرفہ تعلقات ، باہمی دلچسپی کے امور اور افغان مفاہمتی عمل پر تبادلہ خیال کیا ۔

بعد ازاں افغان صدر اشرف غنی کے ہمراہ پریس کانفرنس میں انہوں نے سب سے پہلے صدر اشرف غنی کی جانب سے کابل کا دورہ کرنے پر ان کا شکریہ ادا کیا اور کہا میں 50 سال سے کابل اور افغانستان کا دورہ کرنے کا سوچ رہا تھا تاہم یہ کبھی ہو نہیں سکا اور اب آپ نے مجھے یہ موقع فراہم کیا ہے۔وزیراعظم عمران خان نے کہاکہ 60 اور 70 کی دہائی میں پاکستانیوں کے لیے کابل پسندیدہ جگہ تھی جبکہ افغانوں کیلئے پشاور تھا۔انہوں نے کہا کہ ہمارے تاریخی تعلقات ہیں، میں نے ایسے وقت میں جب افغانستان میں تشدد بڑھ رہا ہے، دورے کا خیال اس لیے کیا کیونکہ ہم پاکستانی حکومت اور پاکستان کے لوگوں کو افغانستان میں امن چاہتے ہیں۔عمران خان نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ افغانستان کے لوگ 4 دہائیوں سے ان حالات کا سامنا کر رہے ہیں اور اگر کسی انسانی برادری کو امن کی ضرورت ہے تو وہ افغانستان ہے اور یہاں امن کے لیے پاکستان اپنا کردار ادا کیا۔انہوں نے کہا کہ پہلے طالبان اور امریکا کے درمیان مذاکرات ہوئے جس کے بعد اب بین الافغان مذاکرات کا آغاز ہوا ہے تاہم ہم نے یہ نوٹس کیا ہے کہ قطر میں مذاکرات کے باوجود تشدد میں اضافہ ہورہا ہے۔انہوں نے کہا کہ لہٰذا ایسے وقت میں میرا افغانستان آنے کا مقصد یہ تھا کہ ہم یقین دلا سکیں کہ جو ممکن ہوا پاکستان وہ کریگا اور ہم اس تشدد کو کم کرنے اور جنگ بندی کی طرف لانے میں مدد کریں گے،

ہم نے کمیٹیاں تشکیل دی ہیں۔وزیراعظم نے کہا کہ ان کمیٹیوں کے قیام کا مقصد ہمارے اور ہماری سیکیورٹی ایجنسیز کے درمیان روابط کو یقینی بنانا ہے، مزید یہ کہ آپ کو جب بھی یہ محسوس ہو کہ پاکستان، تشدد کو کم کرنے میں مدد کرسکتا ہے تو ہمیں بتائیں، میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم بھی ہمارے دائرہ کار میں ہوا اور جو ہم کرسکے وہ کریں گے۔انہوں نے کہا کہ افغانستان کے بعد پاکستان وہ ملک ہے جو وہاں امن کا سب سے زیادہ خواہاں ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ افغانستان سے جڑے پاکستان کے قبائلی علاقے سابق فاٹا، دہشتگردی کے خلاف جنگ میں تباہ ہوا، نصف آبادی نے نقل مکانی کی، اربوں ڈالر کا نقصان ہوا، لہٰذا امن سے ہم ان افراد کی مدد کرسکتے ہیں اور دونوں اطراف کے لوگوں کے درمیان تجارت کے مواقع بڑھا سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس پورے دورے کا مقصد اعتماد بحال کرنا، روابط بڑھانا اور اس بات کا یقین دلانا کہ ہم آپ کی توقعات سے بڑھ کر مدد کریں گے۔

قبل ازیں افغان صدر نے کہا کہ افغانستان کے دورے پر وزیراعظم کا شکرگزار ہوں ، پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعاون علاقائی ترقی کے لیے ناگریز ہے۔انہوںنے کہاکہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کی نوعیت سے سب آگاہ ہیں، علاقائی روابط کا فروغ اور معاشی سرگرمیاں ہمارے مفاد میں ہیں، ہم افغانستان میں تشدد کے خاتمے کیلئے جنگ بندی کے خواہاں ہیں۔انہوںنے کہاکہ رسولۖ کی ناموس تمام مسلمانوں کی عزت سے جڑی ہے، آزادی اظہار رائے کے حوالے سے منفی اور مثبت رویوں میں تفریق ضروری ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں