بیجنگ (عکس آن لائن) امریکی ایوان نمائندگان کی سپیکر نینسی پیلوسی کے دورہِ تائیوان پر متعدد ممالک اوربین الاقوامی تنظیموں نے ایک چین کے اصول پر قائم رہنے اور چین کے موقف کی بھرپور حمایت کا اعادہ کیا ہے۔جمعہ کے روز چینی میڈ یا کے مطا بق
ایک پریس کانفرنس میں نینسی پیلوسی کے دورہِ تائیوان کے بارے میں صحافیوں کے سوال کے جواب میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیوگوئتریس نے”ایک چین” کے اصول پر کاربند رہنےکا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا موقف بالکل واضح ہے، ہم اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی متعلقہ قراردادوں اورایک چین کے اصول کی پاسداری کرتے ہیں، ہم جو کچھ بھی کرتے ہیں اسی اصول کی رہنمائی میں ہی کرتے ہیں۔
آسیان کے موجودہ چیئرمن ملک کمبوڈیا کی وزارت برائے امورِ خارجہ و بین الاقوامی تعاون نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ آسیان کے رکن ممالک ایک چین کے اصول کی حمایت کرتے ہیں اور اقوام متحدہ کے چارٹر اورجنوب مشرقی ایشیا کے دوستانہ تعاون کے معاہدے کو برقرار رکھنے پر زور دیتے ہیں۔
نکاراگوا کے صدر ڈینیل اورٹیگا نے کہا کہ امریکی سیاستدان کا دورہ تائیوان شدید اشتعال انگیزی ہے۔
امریکی ایوان نمائندگان کی اسپیکر نینسی پیلوسی کے دورہ تائیوان کے حوالے سے مختلف ممالک کی حکومتوں نے ایک چین کے اصول سے متعلق اپنی پاسداری کا اعادہ کیا اور بین الاقوامی قانون کو پامال کرنے والے اور چین کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی سنگین خلاف ورزی کرنے والے نفرت انگیز امریکی اقدامات کی مخالفت کی۔
سری لنکا کے صدر وکرما سنگھے نے 4 اگست کو ایک چین کے اصول کی حمایت اور تمام ممالک کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت پر اقوام متحدہ کے چارٹر کے اصولوں کا احترام کرنے کے سری لنکا کے پختہ عزم کا اعادہ کیا۔
روسی سیکیورٹی کونسل کے نائب چیئرمین دمتری میدویف نے کہا کہ پیلوسی کا دورہ تائیوان ایک صریح اشتعال انگیزی ہے جو براہ راست ایشیائی سلامتی کے لیے نقصان دہ ہے۔ ایک جانب امریکہ ایک چین کے اصول کو برقرار رکھنے کا دعویٰ کرتا ہے لیکن دوسری جانب وہ علیحدگی پسند قوتوں کو اکسانے کی ہر ممکن کوشش کر رہا ہے۔
جنوبی سوڈان، ڈومینیکا، تنزانیہ، متحدہ عرب امارات، قطر، ڈیموکریٹک ریپبلک آف ساؤ ٹوم اینڈ پرنسپے، موزمبیق اور دیگر ممالک نے بھی ایک چین کے اصول پر قائم رہنے اور چین کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے احترام کا اعادہ کیا۔
متعدد ممالک کی شخصیات نے نشاندہی کی کہ پیلوسی کے اس عمل سے چین کے اقتدار اعلی اور علاقائی سالمیت کی شدیدخلاف ورزی ہوئی ہے اور یہ بین الاقوامی قوانین اور بین الاقوامی تعلقات کے بنیادی اصولوں کی سنگین خلاف ورزی بھی ہے،جس کی عالمی برادری کومذمت کرنی چاہیئے۔
اقوام متحدہ کے سابق انڈر سیکریٹری جنرل اور اطالوی ماہر سماجیات پینو آراکی کا کہنا ہے کی یہ چین کے خلاف کھلی اشتعال انگیزی ہے۔ تائیوان کی صورتحال سے ہر کوئی واقف ہے،جس میں اگر دسیوں ہزار کلومیٹر دور سےامریکہ مداخلت کرتا ہے تو یہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔
فلپائنی کالم نگار لی تیان رونگ نے کہا کہ امریکی معیشت کساد بازاری کا شکار ہے اور سیاست منقسم ہے۔ امریکہ صرف ایشیا اور دیگر ممالک کے لیے ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے لیے ایک بڑی مصیبت ہے۔ پیلوسی کے عمل سے عدم استحکام پیدا کیا گیا ہے اور امریکی سیاست کے انتشار ظاہر ہوا ہے۔
راوانڈا کے ایک سینئر میڈیا پرسن اور “افریقہ چائنا ریویو” ویب سائٹ کے چیف ایڈیٹر جیرارڈ مبانڈا نے 3اگست کو ایک مضمون میں نشاندہی کی کہ پیلوسی کا یہ عمل ایک ایسا اقدام تھا جس سے سرخ لکیر کو عبور کیا گیا، جان بوجھ کر تناؤ پیدا کیاگیا، آبنائے تائیوان میں استحکام اور امن کو نقصان پہنچایا گیا اور چین کے اقتدار اعلی نیز بین الاقوامی قوانین و تعلقات کے بنیادی اصولوں کی سنگین خلاف ورزی کی گئی ہے۔ بین الاقوامی برادری کی طرف سے اس کی مذمت کی جانی چاہیے۔