اسلام آباد (عکس آن لائن)وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ نے کہا ہے کہ عین ممکن ہے کہ اگر ہم نے صحیح اقدامات نہیں اٹھائے تو ہم بھی ناکام ہوجائیں گے ،گزشتہ حکومت میں بجلی کی قیمت نہ بڑھانا اور قرض لینا مہنگائی کی وجوہات ہیں، ایسا نظام چل رہا تھا جس میں ڈالرز کو جان بوجھ کر سستا رکھا گیا،جب حکومت آئی تو پہلی چیز جو مسائل کی جڑ ہے وہ 30 ہزار ارب کا قرض تھا،جو لوگ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی راہداریوں میں نہیں گھس سکتے وہ آئی ایم ایف پر تنقید کررہے ہیں،
کوئی بھی آئی ایم ایف خوشی سے نہیں جاتا حالات مجبور کرتے ہیں رضا باقر نے پاکستان کیلئے آئی ایم ایف کی نوکری چھوڑی دی‘ ہمارا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 20 ارب ڈالر سے اب 2 ارب ڈالر پر ہے ،آئندہ ایک دو ماہ میں اشیاکی قیمتوں میں کمی آئیگی اورمستحکم ہوں گی، پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑی حقیقت یہ ہے 72 سال میں اس ملک کا ایک بھی وزیراعظم اپنی مدت مکمل نہیں کرسکا ،معیشت کیاستحکام کیلئے داخلی سلامتی ضروری ہے،آٹا، کوکنگ آئل، چینی، دالیں، چاول مارکیٹ سے سستا یوٹیلیٹی اسٹورز پر مل رہی ہیں جو مستقل ہونگی،عوام استفادہ حاصل کریں ۔ بدھ کو قومی اسمبلی میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے مشیر خزانہ حفیظ شیخ نے کہاکہ معیشت کیاستحکام کیلئے داخلی سلامتی ضروری ہے،پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ 72 سال میں اس ملک کا ایک بھی وزیراعظم اپنی مدت مکمل نہیں کرسکا اور پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان سب سے زیادہ عرصے تک اس عہدے پر رہے۔مشیر خزانہ نے کہا کہ میری کوشش ہوگی کہ سیاسی پوائنٹ اسکورنگ نہ کروں،اس ایوان میں ایسا ماحول ہونا چاہیے تاکہ سب کا احترام ملحوظ ہو۔انہوں نے کہاکہ جب ہم استحکام کی بات کرتے ہیں توکچھ چیزوں کو نظر میں بھی رکھنا چاہیے،
میری کوشش ہوگی کہ ہم ایک دوسرے کی بات سنیں کیونکہ جو بھی ہماری معیشت میں ہورہا ہے اس کے اثرات براہ راست لوگوں پر پڑ رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ جن لوگوں نے ہماری آنکھوں کے سامنے ترقی کی، ان سب نے دنیا کے ساتھ مل کر ایسا طریقہ ڈھونڈا کہ وہ اپنی چیزیں وہاں بیچیں اور ایسا ماحول پیدا کیا کہ دوسرے ممالک کے لوگ یہاں آکر بزنس کریں۔ڈاکٹر حفیظ شیخ نے کہا کہ ایسے کوئی ملک نہیں ہوسکتے کہ لوگ ترقی پذیر ہوں اور ممالک ترقی یافتہ ہوں، ایسا کوئی ملک نہیں کہ لوگ پڑھیل کھے نہ ہو، ان کے پاس ہنر نہ ہو، انہیں نظرانداز کیا جائے اور ملک ترقی کرہائے اگر ہم نے آگے جانا ہے اور ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ کھڑے ہونا ہے تو ہم اپنے لوگوں پر دھیان دیں۔انہوں نے کہا کہ حقائق میں تیسری بات یہ ہے کہ پاکستان 72 برس میں کامیاب نہیں ہوسکا، اپنی چیزیں دوسرے ممالک کو بیچنے میں یا دوسرے ممالک کو سرمایہ کاری کیلئے قائل کرنے کی کوششیں کرتا رہا تو جن ممالک کی مثالیں دی جاتی ہیں جنہوں نے ہمارے سامنے ترقی کی چاہے وہ چین ہو، تھائی لینڈ، ملائیشیا یا کوریا ان سب نے پوری دنیا کے ساتھ مل کر ایسا طریقہ ڈھونڈا کہ وہ اپنی چیزیں وہاں بیچ سکیں اور ایسا ماحول پیدا کیا کہ دوسرے ممالک وہاں سرمایہ کرسکیں۔مشیر خزانہ نے کہا کہ 72 سال میں پاکستان ٹیکس وصولی میں اچھے سے کامیاب نہیں ہوسکا اور ہم ہمیشہ خوددار ملک ہوتے ہوئے دوسرے ممالک پر انحصار کرتے رہے۔
ڈاکٹر حفیظ شیخ نے کہا کہ اس ملک میں ایسے دور آئے کہ ترقی کی رفتار میں تیزی آئی تاہم یہ رفتار 3 سے 4 برس تک مسلسل نہیں چل سکی، 60 کی دہائی، 80 کی دہائی اور 2000 کے عشرے میں آئی تو وہ پائیدار ثابت نہیں ہوسکی۔انہوں نے کہاکہ ہمیں سوچنا ہے کہ گروتھ ریٹ حاصل تو کرسکتی ہے لیکن یہ مسلسل جاری کیوں نہیں رہ سکتی اگر ہم ان سوالوں کے جواب نہیں دے پائیں گے تو معیشت میں وہ پائیدار ترقی نہیں ہوگی جس سے ہم اپنے لوگوں کی زندگی بدل سکیں۔ڈاکٹر حفیظ شیخ نے کہا کہ اصل چیز یہ نہیں ہے کہ کون زیادہ اچھی تقریر کرتا ہے اور اپنے ہی لوگوں سے تالیاں بجواتا ہے اصل چیز یہ ہے کہ ہم ان چیزوں پر ایک ساتھ ہوکر چلیں جو اس ملک کے فائدے کے لیے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کا جو بحران ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے پاس ڈالرز نہیں ہیں اور ہم نے قرضے بھی ڈالرز ہی میں لیے ہیں اور ہم ڈالرز ختم کرتے چلے جارہے ہیں۔مشیر خزانہ نے کہا کہ گزشتہ 5 برس میں برآمدات صفر فیصد رہیں اور ڈالر کو سستا رکھا گیا ہمارے معیشت کی صنعتکاری پر اثر پڑا یہ ایسا مسئلہ ہے جس پر ہمیں سوچنا ہے۔انہوں نے کہاکہ یہ چیلنج اس حکومت کے لیے بھی ہے، یہ عین ممکن ہے کہ اگر ہم نے صحیح اقدامات نہیں لیے تو ہم بھی ناکام ہوجائیں گے یہ اس ملک کے لیے بڑا چیلنج ہے۔ڈاکٹر حفیظ شیخ نے کہا کہ اگر ہم نے مستقل اور پائیدار انداز میں اپنے ملک کو بہتری کی جانب لے جانا ہے تو یہ ایک بنیادی چیلنج ہے جس سے ہمیں نمٹنا ہوگا۔
انہوں نے کہاکہ اس ملک کی زراعت نے اس انداز میں ترقی نہیں ہوئی، کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا جبکہ اس پر کتنے لوگ انحصار کرتے ہیں اور جو گروتھ ریٹ تھا وہ بھی صفر کے برابر رہا۔مشیر خزانہ نے کہا کہ میرے خیال میں اس ملک کا الیکٹرک سٹی سیکٹر پاکستان کے لیے تباہی کا باعث بن سکتا ہے اور ہم بطور ملک اس مسئلے کو حل کرنے میں مسلسل کرنے میں ناکام ہے اور یہ مسئلہ گردشی قرضوں سے ظاہر ہوتا ہے۔انہوں نے کہاکہ مختصراً یہ کہ ہمیں دیوالیہ نظر آرہا تھا، ہم بحران میں داخل ہوچکے تھے، کوئی قرض دینے کے لیے تیار نہیں تھا توجب لوگ سوال اٹھاتے ہیں کہ آپ نے یہ نہیں کیا، وہ نہیں کیا تو اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ڈالرز ختم ہوچکے تھے اور کوئی قرض دینے کو بھی تیار نہیں تھا۔مشیر خزانہ نے کہا کہ اس صورتحال میں ہمیں ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانا تھا کیونکہ وہ عوام کے لیے بہت خطرناک ہوتا، انہوں نے کہا کہ یہ نمبروں کا کھیل نہیں اس کا انسانوں کی زندگی سے واسطہ ہے۔انہوں نے کہا کہ کچھ دوست ممالک نے مدد کی اور ہم نے 8 ارب ڈالر کی دو طرفہ معاونت حاصل کی اور سو ڈالر میں تیل خریدنے کے لیے موخر ادائیگی کی سہولت حاصل کی۔مشیر خزانہ نے کہا کہ یہ چیز اہم تھی کہ آئی ایم ایف کے پاس جائیں، آئی ایم ایف کے بارے میں بہت تقریریں ہوئی جذبات کا اظہار بھی ہوا میں فقط یہی کہوں گا کہ 2008 میں جو حکومت وہ بھی آئی ایم ایف کے پاس گئی اور 2013 میں جو حکومت آئی وہ بھی آئی ایم ایف کے پاس گئی۔انہوں نے کہا کہ یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ لوگ جو خود جاچکے ہوں وہ دوسرے کو اسی چیز پر تنقید کریں۔
ڈاکٹر حفیظ شیخ نے کہا کہ یہ ہمارا قومی مسئلہ ہے کہ ترقی کی رفتار ایسی نہیں ہوتی کہ ہم آئی ایم ایف کے پاس نہ جائیں، آئی ایم ایف کوئی بھی خوشی سے نہیں جاتا چاہے وہ پچھلی حکومتیں ہوں یا موجودہ حکومت، حالات مجبور کرتے ہیں۔مشیر خزانہ نے کہا کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے سے فائدہ ہوا کہ ہم نے جو 6 ارب ڈالر کی فنانسنگ کی وہ آسان شرائط پر تھی یہی پیسے ہم کمرشل بنیادوں پر لیتے تو بہت مہنگے پڑتے۔انہوں نے کہاکہ دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ ساری دنیا کو اعتماد ہوا کہ پاکستان ’ڈسپلن‘ اور اپنی حیثیت کے مطابق چلنے کو تیار ہے اور دنیا اور اس کے اداروں سے شراکت داری، اپنے اخراجات کو محدود کرنے اور پاکستان کے صاحبِ حیثیت لوگوں سے ٹیکس لینے کے لیے تیار ہے۔مشیر خزانہ نے کہا کہ اس کا براہ راست فائدہ ہوا کہ دوسرے ممالک اور بین الاقوامی اداروں جیسا کہ عالمی بینک اور ایشین ڈیویلپمنٹ بینک نے تعاون میں اضافہ کیا اور اس سے پاکستان کی پالیسیوں پر اعتماد بڑھا۔ڈاکٹر حفیظ شیخ نے کہا کہ کچھ لوگوں نے دعویٰ کیا کہ آئی ایم ایف سے مذاکرات کرنے کے لیے دوسری طرف سے بھی آئی ایم ایف کے لوگ بیٹھے ہوئے تھے، یہ زیادتی کی بات ہے کیونکہ ان میں سے ایک شخص اسٹیٹ بینک کے موجودہ گورنر ڈاکٹر رضا باقر تھے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کو رضا باقر پر فخر ہونا چاہیے، وہ لاہور سے پڑھے اور اپنی قابلیت کی وجہ سے امریکا کی بہترین یونیورسٹیز میں پڑھنے گئے، اپنی قابلیت کی وجہ سے آئی ایم ایف میں تعینات ہوئے وہاں ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی ایم این اے کا بندہ ہے تو نوکری مل جائے۔مشیر خزانہ نے کہا کہ جو لوگ آئی ایم ایف کے کاریڈورز میں نہیں جاسکتے وہ آئی ایم ایف کے بڑے بڑے لوگوں پر تنقید کررہے ہیں تو یہ بھی سن لیں کہ رضا باقر نے آئی ایم ایف سے استعفیٰ دے دیا ہے انہوں نے اپنی نوکری کو ٹھکرایا کیونکہ وہ پاکستان کے لیے کام کرنا چاہتے تھے۔مشیر خزانہ نے کہاکہ اب ڈالر ایک طرح سے 154کے قریب منجمد ہوچکا ہے ،آئی ایم ایف نے اپنی تازہ رپورٹ نے لکھا ہے جو ٹارگٹ تھے بڑے آرام سے پورے ہوئے ہیں ۔
انہوں نے کہاکہ بلوم برگ نے پاکستان کی سٹاک ایکسچینج کو تیزی سے ترقی کا لکھا ہے ،پاکستان کو دنیا کے دس تیز ترقی کرنے والے ممالک میں شامل ہوا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ موڈیز نے کہا معیشت مستحکم ہے ،دنیا نے پاکستان میں تین ارب ڈالر سرمایہ کاری کی ہے ۔ انہوں نے کہاکہ سیاحت پاکستان میں دوگنی ہوگئی ہے ،عالمی سیاحتی میگزین نے پاکستان کو سیاحت کیلئے نمبر ایک قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ یہ عالمی ادارے کسی جماعت کے رکن نہیں ،یہ عالمی ادارے خریدے نہیں جاسکتے ۔ انہوں نے کہاکہ قیمتوں میں اضافہ ایک بڑا مسئلہ ہے۔مشیر خزانہ نے کہاکہ عوام سے استدعا ہے کہ وہ یوٹیلیٹی اسٹورز سے استفادہ حاصل کریں ،رمضان سے پہلے راشن کارڈ ایشو کئے جائیں گے جو 25 فیصد رعایت پر سامان حاصل کرسکیں گے ۔ انہوں نے کہاکہ آٹا، کوکنگ آئل، چینی، دالیں، چاول مارکیٹ سے سستا یوٹیلیٹی اسٹورز پر مل رہی ہیں جو مستقل ہونگی،آٹا 800 تھیلہ، کوکنگ آئل 160 فی کلو، چینی 68 روپے کلو یوٹیلیٹی اسٹورز پر میسر ہے ۔
انہوں نے کہاکہ دالیں 135 روپے کلو، باسمتی چاول 125, سیلہ چاول 110 روپے کلو یوٹیلیٹی اسٹورز پر دستیاب ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ 50 لاکھ لوگوں نے یوٹیلیٹی اسٹورز سے خریداری کی جبکہ یوٹیلیٹی اسٹورز کی سیل 7 ارب کی ہوئی۔مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے کہاکہ اب ہمیں قیمتوں میں کمی کے لئے اقدامات کرنا ہیں،ویجیٹیبل آئل، پام آئل، سویا بین آئیل کی قیمتیں بڑھیں، بجلی کی قیمتیں بڑہانا پڑیں جس سے افراط زر میں اضافہ ہوا،پاکستان میں پیداہونے والی بجلی کا بہتر فیصد حکومت سبسیڈائز کرتی ہے،بجلی کی قیمت پر قابو پانے کے لئے اس کی چوری کو روکنے کے اقدامات کئے ہیں،حکومت آئی تو ہرماہ گردشی قرضہ اڑتیس ارب بڑھ رہا تھا جو اب بارہ ارب ماہانہ بڑھ رہا ہے،کھانے پینے کی بعض چیزوں میں اضافہ بھارت سے مسائل کی وجہ سے بھارت سے امپورٹ کم ہونے سے ہوا، ہم نے پہلے چھ سات ماہ میں ایکسچینج ریٹ کو کنٹرول میں رکھا،ہم نے گزشتہ سات ماہ میں پٹرول، ڈیزل اور کیروسین آئیل کی قیمت میں کوئی اضافہ نہیں کیا،ہم نے افراط زر میں کمی لائی ہے، مانیٹری پالیسی سخت کی۔
انہوں نے کہاکہ اگلے چند ماہ میں کامیاب نوجوان پروگرام کے تحت دو ہزار مزید یوٹیلیٹی سٹورز کھولے جائیں گے ۔ انہوں نے کہاکہ ملک میں گاڑیوں کی پروڈکشن میں ماہ رواں میں اضافہ ہوا ہے،ٹریکٹروں اور موٹرسائیکلوں کی فروخت میں بھی اضافہ ہوا ہے،ملک میں گزشتہ سات ماہ میں تین کروڑ ٹن سیمنٹ بیچی گئی جو زیادہ ہے پچھلے سال سے،حکومت عوام اور ملک کے مفاد کے لئے کام کررہی ہے، حکومت نے ملکی قرضوں میں پہلے سال بہت کم اضافہ کیا جس کی وجہ ڈالرز کی قیمت بڑھنا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم بحران سے نمٹنے کے لیے دو بڑی چیزیں کرنا تھی جن میں پہلے اخراجات کی کمی تھی، حکومت نے کچھ ایسے فیصلے کیے جو تاریخ ساز ہیں، یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کیسے اس ملک کے ادارے اور لوگ اس جدوجہد میں ایک دوسرے کے ساتھ ہیں، بڑا فیصلہ کیا گیا کہ فوج کے بجٹ کو منجمد کیا جائے،کیا ایسا فیصلہ کسی نے پہلے کیا، سول حکومت کے بجٹ میں 40 ارب کی کمی کی گئی،اخراجات کو مینج کرنے کے لیے سخت بجٹ بنایا، ہمارا ٹیکس ریشو دنیا کے کم ترین ممالک میں سے ہے، پہلے 7 ماہ میں 2 ہزار 200 ارب کے قریب ٹارگٹ تھا جو 2 ہزار ایک سو ارب حاصل کیا، ہم 5 ہزار اب کے قرض واپس کرنا ہیں، طے کیا اسٹیٹ بینک سے قرض نہیں لیں گے،7 ماہ میں اسٹیٹ بینک سے کوئی قرض نہیں لیا۔