تہران(عکس آن لائن)ایران کے سپریم لیڈرآیت اللہ علی خامنہ ای نے شام کے صدر بشار الاسد اور ان کے ہمراہ آنے والے اعلی سطحی وفد کا استقبال کرتے ہوئے کہا ہے کہ مزاحمت شام کی ایک مخصوص شناخت ہے۔اس کی حفاظت کی جانی چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس شناخت کی وجہ سے خطے میں شام کا الگ مقام ہے اور اس اہم فائدے کو برقرار رکھا جانا چاہیے۔دوسری جانب شام کے صدر نے اس ماہ کے وسط میں صدرابراہیم رئیسی کے ہیلی کاپٹر کے حادثے میں جاں بحق ہونے پرایرانی سپریم لیڈر سے تعزیت کا اظہار کیا۔ ملاقات میں ایران کے عبوری صدر محمد مخبربھی موجود تھے۔انہوں نے مزید کہا کہ شام کی مخصوص شناخت وہ مزاحمت ہے جو مرحوم حافظ الاسد کے دور میں اور تحمل اور محاذ آرائی کے قیام کے ساتھ قائم ہوئی تھی۔اس شناخت نے ہمیشہ شام کے قومی اتحاد کے حصول میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ مغرب اور خطے میں ان کے اتحادیوں نے شام کے خلاف شروع کی گئی جنگ کے ذریعے شام کی سیاسی حکومت کا تختہ الٹنے اور شام کو خطیکی ناکام ریاست بنانے کا منصوبہ بنایا تھا، لیکن وہ کامیاب نہیں ہوئے۔ اب وہ وعدوں سمیت دیگر طریقے استعمال کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ مگر وہ شام سے کیے وعدے کبھی پورا نہیں کریں گے۔خامنہ ای نے مزید کہا کہ ہر ایک کو اپنی آنکھوں سے شام کی امتیازی خصوصیت یعنی مزاحمت کی پشتیانی کو دیکھ لینا چاہیے۔انہوں نے مزید کہا کہایران اور شام پر امریکہ اور یورپ کے سیاسی اور اقتصادی دبا کو غیر موثر بنانے کے لیے موجودہ حالات پر دو طرفہ تعاون کو فروغ دینے اور منظم کرنے کے ذریعے قابو پانا چاہیے۔ایرانی سپریم لیڈر نے مزید کہا کہ اب تک عبوری صدر محمد مخبر اسی طرز عمل کو جاری رکھے ہوئے ہیں اور ہمیں امید ہے کہ معاملات ٹھیک ہو جائیں گے۔خامنہ ای نے بحرین میں ہونے والی عرب سربراہ کانفرنس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ منامہ میں عرب رہ نماں کے آخری اجلاس میں فلسطین اور غزہ کے حوالے سے بہت سی کوتاہیاں ہوئی تھیں، لیکن کچھ ممالک نیاچھا کردار ادا کیا۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ہم سب اپنا فرض ادا کر سکیں گے۔
شام کے صدر بشار الاسد نے کہا کہ ایران اور شام کے درمیان تزویراتی تعلقات ہیں جو آپ کی ہدایات کے تحت آگے بڑھتے ہیں۔ جناب رئیسی اور جناب امیر عبداللہیان آپ کی ہدایات کی روشنی میں طے کردہ پالیسیوں پر عمل درآمد کرنے کے لیے کوشاں تھے۔انہوں نے مزید کہا کہ گذشتہ تین سالوں میں رئیسی نے علاقائی مسائل اور فلسطین کے مسئلے میں اسلامی جمہوریہ کے کردار کے ساتھ ساتھ ایران اور شام کے تعلقات کو گہرا کرنے پر ایک اہم اثر ڈالا ہے۔بشارالاسد نے خطے میں مزاحمت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 50 سال سے زائد عرصے کے بعد خطے میں مزاحمت کی لائن آگے بڑھی ہے اور اب مذہبی اور سیاسی نقطہ نظر کی شکل اختیار کر چکی ہے۔انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ میں نے برسوں پہلے اعلان کیا تھا کہ مزاحمت کی قیمت ایک سمجھوتے کی قیمت سے کم ہے۔ یہ مسئلہ شامی عوام پر اب بالکل واضح ہے اور غزہ کے حالیہ واقعات اور مزاحمت کی فتوحات نے ثابت کر دیا ہے۔ یہ مسئلہ شام کے عوام اور خطے کے لییاہم ہے اور اس نے ثابت کیا کہ مزاحمت ایک مسلمہ اصول ہے۔بشارالاسد نے خامنہ ای کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی گفتگو میں اہم نکات تھے، لیکن میرے لیے ایک نکتہ زیادہ اہم تھا۔ جس پر آپ نے زور دیا اور کہا ‘ہم جتنا زیادہ ایک ساتھ بیٹھیں گے دوسرا فریق اتنا ہی آگے بڑھے گا’۔ اس مسئلے میں کوئی شک نہیں۔ یہ ہمارا نعرہ اور ہمارا عقیدہ ہے جس پر ہم چالیس سال سے چل رہے ہیں۔