شامی حکومت اور مسلح گروہوں میں چھڑپیں، 80 افراد ہلاک

بیروت(عکس آن لائن) شامی حکومت کی افواج اور مسلح گروہوں کے درمیان جھڑپوں میں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران دونوں اطراف سے 80 زائد افراد ہلاک ہوگئے۔اقوام متحدہ کی جانب سے کشیدگی کو کم کرنے کا مطالبہ بھی نظرانداز کردیا گیا۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق برطانیہ میں قائم شامی آبزرویٹری برائے انسانی حقوق کے مطابق شمال مغربی صوبے ادلب میں حکومت کی فوج کے ساتھ لڑائیوں میں 42 مسلح جنگجو اور 9 باغی مارے گئے۔

آبزرویٹری کے مطابق مسلح گروہوں کے زیر قصبہ ماریات النومان کے قریب لڑائی میں بھی شامی حکومت کے 30 اہلکار ہلاک ہوگئے۔شامی آبزرویٹری کا کہنا تھا کہ حکومت کے اتحادی روس کے جنگی طیاروں نے متعدد فضائی حملوں سے ماریات النومان اور سراقب کے آس پاس کے علاقوں کو نشانہ بنایا۔ تازہ جھڑپوں کی وجہ سے قریبی علاقوں سے نقل مکانی کی شروع ہوگئی۔یاسر ابراہیم الدندل نے بتایا کہ وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ شمالی ادلیب میں فرار ہوئے جہاں انہوں نے آسمان کے نیچے رات گزاری۔

انہوں نے کہا کہ سیکڑوں راکٹوں نے میرات النعمان کو نشانہ بنایا اور صورتحال بہت خراب ہے۔واضح رہے کہ ادلیب 30 لاکھ نفوس پرمشتمل ہے جس میں شام کی خانہ جنگی سے متاثرین بھی شامل ہیں۔حکومت کی حامی فورسز نے اپریل میں مسلح گروہوں کے خلاف حملہ شروع کیا تھا جس میں لگ بھگ ایک ہزار شہری ہلاک اور 4 لاکھ افراد بے گھر ہوگئے تھے۔خیال رہے کہ اگست میں ماسکو نے جنگ بندی کا اعلان کیا تھا لیکن صدر بشار الاسد کی حکومت نے متعدد مرتبہ اس علاقے پر دوبارہ قبضہ کرنے کی کوشش کی۔اس ضمن میں شامی آبزرویٹری کا کہنا تھا کہ مہلک بمباری اور تصادم بدستور برقرار جاری ہیں۔

اقوام متحدہ نے رواں ہفتے آبزرویٹری کی رپورٹ کے بعد تشدد میں غیر معمولی اضافے کی مذمت کی۔اس سے قبل منگل کو حکومت کے فضائی حملوں سے 23 شہری جاں بحق ہوگئے تھے۔اقوام متحدہ کے شام کے سفیر برائے انسانی حقوق کے سینئر مشیر نجات روچدی نے ‘فوری طور پر جنگ بندی’ پر زور دیا۔شہریوں اور امدادی کارکنوں نے بتایا کہ روسی فورسز اور شامی فوج کی جانب سے شدید بمباری کی وجہ سے ہزاروں افراد شمال مغربی شام میں حزب اختلاف کے آخری بڑے گڑھ سے ترک سرحد پر فرار ہوگئے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ گاڑیوں کی ایک لمبی قطار اپوزیشن کے زیر قبضہ شہر مراات النومان کو چھوڑتے دیکھا گیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں