کراچی(عکس آن لائن)عام لوگ اتحاد کے چیئرمین جسٹس (ر) وجیہ الدین نے کہا ہے کہ ملک میں جو حکومت آتی ہے اس کی ابتدا قرضے سے ہوتی ہے اور کریاکرم بھی قرضے کے اوپر ہی ہوتا ہے۔
اس وقت پاکستان اسیٹل ملز، پی آئی اے اور پاکستان ریلوے ہدف ہیں کہ وہاں سے پیسے، کمشنر بٹورے جائیں۔ اس سے پہلے جو پی ٹی سی ایل اور کے ای ایس سی جیسے اداروں کی نجکاریاں ہو چکی ہیں۔ اس سے بھی بدتر نجکاری موجودہ حکومت کرنے جا رہی ہے۔ اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے اسٹیل ملز کی نجکاری کی منظوری دے دی ہے اور معاملہ کابینہ کے سپرد ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسٹیل ملز کے کْل 9 ہزار 350 ملازمین کو ایک ماہ کی تنخواہ پر فارغ کیا جائے گا اور اس کے ساتھ چونکہ گریجویٹی اور پروویڈنٹ فنڈ بھی شامل ہے تو فی کس تقریباً 23 لاکھ روپے ادا ہوں گے۔
اس مد میں 20 ارب روپے کی قم خرچ ہوگی۔ اس سے پہلے تجویز تھی کہ کْل 8 ہزار افراد کو فارغ کیا جائے گا اور بتایا جاتا تھا کہ اخراجات کی مد میں 18.74 ارب روپیہ خرچ ہوگا۔ ملازمین کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اسٹیل ملز میں 51 تا 60 برس کی عمر کے ملازمین تقریباً 48 فیصد ہیں۔ پاکستان اسٹیل ملز، پی آئی اے یا پاکستان ریلوے ہو، یہ تمام ادارے اوور اسٹاف ہیں۔ ہماری جو حکومتیں آتی رہیں وہ یہاں اپنے منظور نظر افراد کو بھرتی رہیں۔ نتیجے کے طور پر یہ ادارے اپنے ہی بوجھ تلے دب چکے ہیں۔ ان کو بچانے کی ضرورت ہے، کیونکہ یہ ملک کے اہم ترین ادارے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اسٹیل ملز 2015ء سے صرف اس لئے بند پڑا ہے کہ گیس کے بلوں کی ادائیگی نہیں کی تھی۔ جبکہ اسی قسم کے دوسرے ادارے کو تقریباً گیس کے بلوں کی اتنی ہی رقم واجب الادا تھی لیکن اسے ہاتھ بھی نہیں لگایا گیا۔ یہ سارے کام منصوبہ بندی کے تحت ہوئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان اسٹیل ملز کی حیثیت مادرِ کارخانہ جات جیسی ہے۔
2018ء میں اسی طرح کے مخدوش حالات میں سپریم کورٹ سے دو درخواستوں کے ذریعے رجوع کیا گیا اور سپریم کورٹ نے وزارت پیداوار کو پابند کیا کہ وہ ایک جامع رپورٹ عدالت میں پیش کریں گے۔ معلوم نہیں کہ انہوں نے ایسا کیا بھی یا نہیں۔ اگر نہیں کیا تو انہیں کرنا چاہئے۔ اب میں اسٹیل ملز کے مسائل کی طرف آتا ہوں۔ پاک چائنہ انویسٹمنٹ بینک اس معاملے کو اٹھانے کیلئے تیار تھا اور غالباً اب بھی تیار ہوگا۔ لیکن حکومت نے کوئی توجہ نہیں کی۔ اسی طرح روس جس نے اسٹیل ملز قائم کی تھی، وہ بھی نہایت مخلصانہ انداز، انتہائی کم خرچ اور بالانشینی کی بنیاد پر اسے اپ گریڈ کرنے پر راضی تھا۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ یہ سارا معاملہ اسٹیل ملز کی زمین حاصل کرنے اور اس کے ڈھانچے کو کباڑ کی طرح فروخت کیلئے ہے۔ اس سے پہلے بھی ایسی کوششیں ہوئی ہیں لیکن فرزندانِ وطن نے حکومت کی ان بدنیتیوں کا تدارک کیا۔ ہماری سوچ یہ ہے کہ 51 برس سے اوپر کے ملازمین اور دیگر افراد جو یکمشت بھاری ادائیگی کے خواہشمند ہوں، کو ’’گولڈن ہیڈ شیک‘‘ دیا جائے۔ لیکن اسٹیل ملز کو پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ میں تبدیل کیا جائے۔ اس کے شیئرز مختص کئے جائیں۔
جو لوگ اپنی کْل رقم یا اس کا کچھ حصہ ان شیئرز میں لگانا چاہتے ہیں، ان کو اس کی اجازت ہو۔ نجکاری کا عمل شفاف اور اسٹاک ایکسچینج کے ذریعے سے ہو۔ اور اسٹیل ملز کے شیئرز مارکیٹ میں آزادانہ طور پر قابلِ تجارت ہوں۔ اگر ان اصولوں پر عمل کیا گیا تو اسٹیلز ملز کا ادارہ ایک بار پھر سے کھڑا ہو جائے گا۔ اور اپنی سابقہ ہیئت سے بہتر حالت میں ہوگا اور ملک کی یہ بنیادی صنعت انشاء اللہ ہماری قوم کیلئے ریڑھ کی ہڈی ثابت ہوگی۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں اس وقت تک کوئی ایسی حکومت نہیں آئی جو مالی معاملات میں بدعنوان اور بددیانت نہ ہو۔
لیکن یہ ہمارے وراثتی اور بڑے بڑے ادارے ہم اونے پونے فروخت نہیں کرنے دیں گے۔ پاکستانی قوم ان بدنیتوں کے آڑے آ جائے گی اور ان کو ملک کی قسمت اور وسائل سے اتنی آسانی سے کھیلنے نہیں دیا جائے گا۔