فواد چوہدری

سنہرے مستقبل کے لیے ترقی کی راہ میں حائل روکاوٹوں کو مشترکہ تعاون کے بغیر دور کرنا ممکن نہیں، فواد چوہدری

اسلام آباد( عکس آن لائن ) وفاقی وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی چوہدری فواد حسین نے کامسیٹس کی چوتھی وزارتی سطح کی مشاورتی کمیٹی اجلاس کے شرکاءپر زور دیا ہے کہ کمیشن کے رکن ممالک اپنی مشترکہ ترقی کی راہ میں حائل مسائل کو حل کرنے کے لیے باہمی تعلقات کو مزید مستحکم بنائیں تاکہ مستقبل میں رکن ممالک اپنے شہریوں کو مزید بہتر طرز زندگی فراہم کر سکیں۔

اس ورچوئل اجلاس میں 19 ممالک کے 30 مندوبین شریک ہوئے۔ جس میں ایران، اردن، پاکستان، سوڈان، یمن، ترکی، بنگلہ دیش، صومالیہ، زمبابوے، چین، کولمبیا، مصر، گھانا، قازقستان، نائیجیریا، فلسطین، سری لنکا، تیونس اور یوگنڈاسے تعلق رکھنے والے تین وزرائ، ایک نائب وزیر اور دیگراعلی سطح کےسرکاری عہدیدارشریک ہوئے۔ اسلام آباد میں کامسیٹس کے رکن ممالک کے سفیروںاور سفارتکاروں نے بھی اجلاس میں شرکت کی۔

یادرہے یہ اگست میں ہونے والاملاقاتی اجلاس تھا،جس میں کوویڈ۔19 کی وجہ سے تاخیر ہوئی۔ اس آن لائن اجلاس کی میزبانی کامسیٹس سیکرٹریٹ، اسلام آباد نے کی۔اجلاس کے دوران شرکاءنے 9 نکاتی ایجنڈے پر غوروخوض کیا۔اس موقع پروفاقی وزیر نے کہا کہ پاکستان نے متعدد ممالک کے ساتھ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے میدان میں باہمی تعلقات اور تعاون کی فضا قائم کر رکھی ہے۔ اس میدان میں مزید آگے بڑھنے کے لیے پاکستان نے مصنوعی ذہانت،الائیڈ ٹیکنالوجیز میں ریسرچ، انوویشن اور انٹرپرینیورشپ کے لیے مختلف مراکز برائے ایکسی لینس بھی قائم کیے ہیں۔

اس کے علاوہ بائیو میڈیکل مواد کے لیے اعلی درجے کی ٹیکنالوجیز، معدنی وسائل سے متعلقہ انجینئرنگ، زراعت اور فوڈ ٹیکنالوجیز اور ریلوے انجینئرنگ پر بھی کام جاری ہے اوریہ تمام کام وزارت برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے نالج بیسڈاکانومی اقدام کے تحت مکمل ہوگا۔ وفاقی وزیرنے کامسیٹس کے چیئرپرسن اورکامسیٹس سیکرٹریٹ کے میزبان کی حیثیت سے اپنے پیغام میں مزید کہا کہ کمیشن کے قیام کے ساتھ ہی پاکستان نے کامسیٹس کے مینڈیٹ کی پرجوش سطح پربھرپور مدد شروع کردی تھی۔ انہوں نے کہا کہ سیکریٹریٹ کے قریب رہ کر کمیشن کے کام میںمحنت اور لگن کے عمل کو میری وزارت نے قریب سے دیکھاہے، وزارت اس بات کی بھی گواہ ہے کہ اس تنظیم نے اعلی اور نچلی سطح پر اپنے مشن کی تکمیل کے لیے ہر شعبے میںیکساں جدوجہدجاری رکھی ہوئی ہے۔

وفاقی وزیرچوہدری فواد حسین نے گذشتہ اجلاس کے فیصلے پر عمل درآمد کرنے کے لیے کامسیٹس کی کوششوں کی تعریف کی اور دیگر 26 ممبر ممالک کے اپنے ہم منصب وزراءپر زور دیا کہ وہ ہر طرح سے کمیشن کے منصوبوں کے لیے معاونت فراہم کریںاورخاص طورپرزیادہ سے زیادہ سالانہ ممبرشپ میں شرکت کے لیے باقاعدگی سے کامسیٹس کے مختلف آپریشنزکی مستقل بنیادوں طور پر مدد کی جائے۔انہوں نے کامسیٹس کے رکن ممالک پر زور دیا کہ وہ کوویڈ۔ 19وبائی مرض کے خطرے سے نمٹنے کےلیے باہمی تعاون کو فروغ دیں اور ضمن میں متعلقہ معاشرتی واقتصادی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے ایک دوسرے کی مدد کریں۔ اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کمیٹی کے سکریٹری اور کامسیٹس کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر ایس ایم جنید زیدی نے اپنے ریمارکس میں خطہ جنوبی جنوب اور سہ رخی تعاون کے لیے سائنس کے فروغ اور ترویج میں کمیشن کو ایک اہم پلیٹ فارم قرار دیا۔

انہوں نے رکن ممالک کو اقوام متحدہ کے پائیدار ترقیاتی اہداف کے نفاذ اور اس کے حصول میں تیزی لانے کے لیے شراکت داری کے شعبہ کو فروغ دینے اورجدت طرازی کے نئے طریقوں کو تلاش کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔انہوںنے کہا کہ کامسیٹس کا فورم اس مقصد کے لیے انتہائی فعال اوربہترین ہے،جس کواستعمال کرکے تمام رکن ممالک آگے بڑھ سکتے ہیں۔ اس ورچوئل میٹنگ میںبین الاقوامی تنظیموں نے بھی شرکت کی،جن میں سوئٹزرلینڈکا ساوتھ سینٹر،اٹلی کا جینیٹک انجینئرنگ اینڈ بائیوٹیکنالوجی کے بین الاقوامی مرکز(آئی سی جی ای بی) تھائی لینڈ سے ایشیاءاینڈ پیسیفک کے لیے اقوام متحدہ کا معاشی اور سماجی کمیشن،اٹلی کی سائنس آف ورلڈ اکیڈمی (ٹی ڈبلیو اے ایس) اورپاکستان میںاقوام متحدہ کی تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی تنظیم (یونیسکو) کے علاوہ چین، کولمبیا، مصر، گیمبیا، ایران، انڈونیشیا، اردن، جمیکا، قازقستان، نائیجیریا، پاکستان، شام، سری لنکا، تیونس اور ترکی میں کامسیٹس کے سینٹرز آف ایکسی لینس شامل تھے۔ جس سے نیٹ ورک آف انٹرنیشنل ایس اینڈ ٹی سینٹرز آف ایکسی لینس کانقطہ نظر واضح ہوا جو اس طرح کے باقاعدہ سالانہ اجلاسوں میں سائنسی تعاون کے لیے ضروری سمجھاجاتا ہے۔

اجلاس میں انٹرنیٹ کے ذریعے اسلام آباد میںکمیشن کے ممبر ممالک کے سفارتکاروں نے بھی شرکت کی۔ اجلاس میں کامسیٹس کے رکن ممالک کی مرکزی وزارتوں کی طرف سے تجدید عہد کا اظہار کیا گیا۔ اجلاس کے مندوبین نے سائنس دانوںاور محققین کے درمیان مشترک ترقی کے مسائل کوحل کرنے کے لیے آپس میں مضبوط تعلقات استوار کرنے پر زور دیا، جس سے تمام ارکان نے اتفاق کیا۔ ہنگامیصورتحال کے لیے اعلی سطح پر موثر تعاون اور اقدامات کے تناظر میں کوویڈ۔19 وبائی مرض، سائنسی اور تعلیمی تبادلوں، غذا کی حفاظت اور آب و ہوا میں تبدیلی جیسے مسائل کو حل کرنے کے لیے حکمت عملی تیار کرنے کی تجویز کے ساتھ مشترکہ بحران کے لیے انتظامی فنڈ کے قیام پر بھی اتفاق ہوا۔

اجلاس میں شریک ممالک میں سے ترقی پذیر ممالک کوسائنس اینڈ ٹیکنالوجی میںتعاون کے ایک مضبوط پلیٹ فارم کی فراہمی میںکامسیٹس کے کردار کو سراہتے ہوئے تمام رکن ممالک کے مندوبین نے اسے مزیدمستحکم بنانے میںبھر پور مدد کا عزم ظاہر کیا۔ باہمی تعاون کے لیے جن شعبوں کی نشاندہی کی گئی اُن میں کثیر الجہتی تحقیق، مہاجرین کی آبادکاری کے انتظامات، سائنس کے ذریعے ڈپلومیسی کی تربیت، ڈیٹا بیس سائنس، آب و ہوا سے متعلق سائنس، توانائی، وبائی امراض کے بعد درپیش چیلنجز سے نمٹنے کی تیاری، زراعت، بائیوٹیکنالوجی، فوڈ سکیورٹی، غذائیت، صلاحیتوں کی تعمیروترقی،سائنس اور ٹیکنالوجی سے وابستہ قیادت میں علمی معیشت کی جامعیت اور فعالیت شامل تھی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں