کراچی (عکس آن لائن)نیشنل بزنس گروپ پاکستان کے چیئرمین، پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولزفورم وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدراورسابق صوبائی وزیرمیاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ ڈالر کے مقابلہ میں روپے کی دوبارہ کمزوری پریشان کن ہے، اسحاق ڈار کی آمد کے بعد روپے کی قدر میں اضافے سے جہاں عوام اوربہت سے کاروباری شعبوں نے سکھ کا سانس لیا تھا وہیں برآمدکنندگان پریشان ہیں کیونکہ روپے کی قدر بہتر ہونے اور عالمی کساد بازاری کی وجہ سے پاکستانی ایکسپورٹ میں کمی ہو رہی ہے، جبکہ بیرون ملک سے ترسیلات زر میں بھی کمی کا رجحان ہے۔ ڈالر سستا ہونے سے عوام میں درآمدی اشیاء کے استعمال کا رجحان فروغ پا رہا ہے جس کا راستہ محاصل میں اضافے کیذریعے روکا جائے۔ میاں زاہد حسین نے کاروباری برادری سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ آئی ایم ایف کے اندازوں کے مطابق عالمی شرح نمو جو 2021 میں چھ فیصد تھی امسال 3.2 فیصد جبکہ 2023 میں یہ 2.7 فیصد تک گر جائے گی جبکہ افراط زر بیس فیصد رہے گا جس سے بہت بڑے مسائل جنم لینگے۔
عالمی سطح پر مہنگائی بیس فیصد تک رہے گی مگر پاکستان میں یہ تیس فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ دنیا کے زیادہ تر ممالک اپنی معیشت کے لئے امریکہ پر انحصار کرتے ہیں جس کی شرح نمو ایک فیصد رہنے کا امکان ہے جس سے پاکستان کی برآمدات متاثر ہو سکتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس وقت ساری دنیا کے اقتصادی ماہرین اس پریشانی کا شکار ہیں کہ اگر قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لئے شرح سود میں اضافہ کیا جاتا ہے تو کساد بازاری سے کیسے بچا جائے۔ میاں زاہد حسین نے مزید کہا کہ اس وقت عالمی معیشت کو مہنگائی، بڑھتی ہوئی شرح سود، قرضوں میں اضافہ، ہاؤسنگ مارکیٹ کی تباہی اور روس اور یوکرین کے مابین جنگ جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جبکہ اب تیل برآمد کرنے والے ممالک اپنا منافع بڑھانے کے لئے پیداوار کم کر رہے ہیں جس سے عوام پرمالی دباؤ میں زبردست اضافہ ہو گا۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ پاکستان کو ان مسائل کے علاوہ سیلاب، موسمیاتی تبدیلی اور سیاسی عدم استحکام کا بھی سامنا ہے اس لئے یہاں کے حالات دیگر ممالک سے زیادہ خراب ہو سکتے ہیں جس سے نمٹنے کے لئے ابھی سے جنگی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔