روئی

روئی اور پھٹی کی قیمتوں میں مسلسل مندی کے رجحان کے باعث کاٹن جنرز اور کاشتکاروں میں تشویش کی لہر

کراچی (عکس آن لائن) ٹیکسٹائل ملز کی جانب سے مقامی روئی کی خرید میں غیر معمولی کمی کے باعث روئی اور پھٹی کی قیمتوں میں مسلسل مندی کے رجحان کے باعث کاٹن جنرز اور کاشتکاروںمیں تشویش کی لہر۔روئی کے بعد سوتی دھاگے کی درآمد پر بھی ڈیوٹیزکے خاتمے کے باعث ٹیکسٹائل ملز کامقامی روئی کی خرید میں عدم دلچسپی کے باعث پاکستان میں کپاس کی مجموعی ملکی پیداوار پچھلی تین دہائیوں کی کم ترین سطح تک گرنے کے باوجود جننگ فیکٹریوں میں روئی کے بھاری سٹاکس کی موجودگی۔بعض کاٹن جنرز کے بڑے معاشی بحران میں مبتلا ہونے کے خدشات۔چیئرمین کاٹن جنرز فورم احسان الحق نے بتایا کہ لیکن رواں سال پاکستان سے ٹیکسٹائل پراڈکٹس کی بھر پور برآمدات کے باعث توقع ظاہر کی جا رہی تھی ٹیکسٹائل ملز کی جانب سے جننگ فیکٹریوں سے روئی کی بھر پور متوقع خریداری اور بین الاقوامی منڈیوں میں روئی کے بڑھتے ہوئے نرخوں کے باعث پاکستان میں روئی اور پھٹی کی قیمتوں زبردست تیزی کا رجحان سامنے آنے کے ساتھ ساتھ ٹیکسٹائل ملز کی جانب سے مقامی روئی خریداری میں غیر معمولی رجحان سامنے آئے گا.

لیکن پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن(پی سی جی اے) کی جانب سے جاری ہونے والی ایک تازہ ترین رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ رواں سال 30نومبر تک ملک بھر کی ٹیکسٹائل ملز نے کاٹن جننگ فیکٹریوں سے صرف 37لاکھ10ہزار روئی کی بیلز خریدی ہیں جبکہ گزشتہ کاٹن ایئر کے دوران 30نومبر تک ٹیکسٹائل ملز نے جننگ فیکٹریوں سے ریکارڈ59لاکھ74ہزار بیلز کی خریداری کی تھی جبکہ جنگ فیکٹریوں میں اس وقت روئی کی 9لاکھ بیلز کے سٹاکس موجود ہیں جس کے باعث روئی کی قیمتوں میں مسلسل مندی کا رجحان دیکھا جا رہا ہے۔انہوں نے بتایا کہ وفاقی و صوبائی حکومتوں کی جانب سے دی جانے والی غیر معمولی مراعات پورے کاٹن سیکٹر کی بجائے صرف ٹیکسٹائل ملز تک محدود کرنے سے رواں سال پاکستانی ٹیکسٹائل ایکسپورٹس تو بہتر ہو سکیں گی لیکن کاٹن جنرز اور کاشت کاروں کے لئے کوئی مراعاتی پیکج نہ ہونے کے باعث آئندہ سال کپاس کی کاشت میں مزید متوقع کمی کے باعث پاکستان کو ایک بار پھر اربوں ڈالر مالیتی روئی اور خوردنی تیل درآمد کرنا پڑ سکتا ہے جس سے پاکستان معاشی طور پر مضبوط ہونے کی بجائے مزید کمزور ہو سکتا ہے ہے اس لئے حکومت پاکستان کو کاٹن جنرز اور کاشتکاروں کے لئے فوری طور پر مراعاتی پیکجز کا اعلان کرنا چاہیئے جس میں کاٹن جنرز کے لئے خاص طور پر انکم ٹیکس گوشوارے جمع کرانے بارے سابقہ قوانین کی بحالی اوربجلی کے رعائتی ٹیرف کا نفاذ شامل ہے جبکہ کاشتکاروں کے لئے کھادوں پر دی گئی سبسڈی کی ٹوکن سسٹم کے ذریعے ادائیگی کی بجائے نقد ادائیگی اور زرعی ٹیوب ویلزکے لئے بجلی کے رعائتی ٹیرف جیسے مطالبات شامل ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں