راجا خضر یونس۔
آج کل ہر طرف گلوکارہ اور ماڈل رابی پیرزادہ کی بے باک ویڈیوز اور تصاویر کا چرچا ہے جو گذشتہ دنوں سوشل میڈیا کے زریعے منظر عام پہ آیئں اور دیکھتے ہی دیکھتے ہر ایک کے ان باکس اور واٹس ایپ اور کچھ منچلوں کی وال کی زینت بن گئیں۔
دلچسپ بات یہ کے ابھی تک رابی کی طرف سے ان تصاویر اور ویڈیوز کے بارے کسی قسم کی تردید نہیں کی گئی جو اس بات کی دلالت ہے کہ ان تصاویر اور ویڈیوز کی صحت بارے کوئی ابہام نہیں ہے۔اس طرح کے واقعات کوئی نئی یا اچنبھے کی بات نہیں ماضی میں بھی مقبول ادکاراوں اور ماڈلز کی قابل اعتراض تصاویر اور دیگر مواد منظر عام پہ آتا رہا ہے جس میں ماضی کی ایک معروف فلمی ادکارہ اور اب گلوکارہ کی ایک ویڈیو (جب وسی آر کا دور تھا) تو لوگوں کے زہنوں میں تازہ ہوگی جبکہ ڈرامہ کوہین کا خطاب حاصل کر نے والی فلمی ادکارہ میرا جی کی ایک ویڈیو تو آج بھی سوشل میڈیا پہ موجود ہے جس کے بارے موصوفہ اج تک انکار کرتی آئی ہیں۔اور اس کے علاوہ مشہور ادکارہ اور اج کل ٹویٹر کی ٹرینڈر وینا ملک کا ایک بے باک فوٹو شوٹ نے تو ایک ہنگامہ برپا کر دیا تھا۔
یہاں یہ بات قابل غور ہے کے ایسا کیوں ہوتا ہے ؟ اور اس طرح کی اخلاق باختہ حرکات منظر عام پہ لانے کے کیاقاصد ہوتے ہیں ؟؟
عام قاری کی حثیت سے بات کریں تو ایسا صرف سستی شہرت حاصل کرنے کا ایک انتہائی بھونڈا طریقہ قرار دیا جاسکتا ہےکہ اپنی شخصیت کو لائم لائیٹ میں رکھنے کے لیے اس طرح کی اوچھی حرکات کی جاہیں۔جبکہ تصویر کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کے کسی بھی فرد کی زاتی زندگی کو یوں منظر عام پہ لے آنا کسی بھی مہذب معاشرے میں ناقابل قبول تصور کی جاتی ہے۔ہر فرد کی اپنی نجی زندگی ہے وہ اس میں جو مرضی کرتا پھرے کسی دوسرے کو حق نہیں پہنچتا کے وہ اس کے زاتی معاملات میں مداخلت کرئے۔تاہم ایسی شخصیات جو عوام الناس میں مقبول ہوں انہیں اس طرح کے متازعہ معاملات سے خود کو دور رکھنا چایے۔
رابی پہ تو جیسے آج کل ساڑھ ستی کا دور چل رہا ہے ابھی محکمہ جنگلی حیات والا کیس حل نہیں ہوا تو سوشل میڈیا کا محاز کھل گیا ۔اگے چل کہ یہ باتیں رابی کے کیرئیر کے لیے مہلک ثابت ہوسکتی ہیں۔ (انہوں نے اس سلسلے میں سائبر کرائم ونگ سے رابطہ کر لیا ہے) تاہم جہاں تک میرا زاتی خیال یے ایسا کچھ ہوتا نظر نہیں آتا۔اب کوئی بچارے محسن عباس ۔۔سے پوچھے کے جس کے خانگی معاملے کو لے کر اس پر کئی عورت کارڈ کو استعمال کرنے والوں نے حیات تنگ کردی۔اب کوئی رابی پہ بھی اخلاقیات کو پامال کرنے کی قدغن لگے گی یا نہیں۔۔۔؟؟؟۔
سوشل میڈیا کا جہاں ایک طرف آگاہی اور معلومات کے تبادلے کا تیز ترین زریعہ ہے وہیں اس کے منفی استعمال کے مضر اثرات سامنے آریے ہیں کوئی بھی فرد خواہ مرد ہو یا عورت اس کے اثرات سے محفوظ نہیں۔۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اس معاملے میں بھر پور قانون سازی کی جائے اور پھر ان قوانین کو لاگو بھی کیا جائے تاکہ کوئی بھی اس ٹچ کے بٹن کو استعمال کرتے ہوئے کسی دوسرے کی پگڑی نہ اچھال سکے۔اور ساتھ ساتھ اس بات کا خیال بھی رکھا جائے کے اسے جذبات کی رو میں بہنے کی بجائے عقل و دانش کے ہتھیار کو استعمال کرتے ہوئے اس آتش نمررود میں کودا جائے۔