واشنگٹن(عکس آن لائن) امریکا کے سابق مشیر برائے قومی سلامتی جان بولٹن نے اعتراف کیا ہے کہ کئی بار بیرون ملک حکومتوں کی تبدیلی کے لیے بغاوت کی کوششوں کی منصوبہ بندی میں مدد کی تھی۔عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکا کے اقوام متحدہ میں سابق سفیر اور مشیر قومی سلامتی جان بولٹن نے گزشتہ برس ٹرمپ کے حامیوں کے کیپیٹل ہل پر حملے سے متعلق کانگریس کی سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو میں کئی انکشافات کیے ہیں۔سی این این سے گفتگو میں جان بولٹن نے اعتراف کیا کہ انھوں نے کئی بار دوسرں ممالک میں ”رجیم چینج” ( منتخب حکومتوں کی تبدیلی) کے لیے وہاں کی اپوزیشن جماعتوں کی بغاوتوں میں مدد کی تھی اور اس کام میں کافی محنت لگتی ہے۔سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر تنقید کرتے ہوئے اْس وقت کے مشیر قومی سلامتی جان بولٹن کا مزید کہنا تھا کہ رجیم چینج کا کام ٹرمپ نے نہیں بلکہ میں نے کیا تھا۔
سابق صدر میں اتنی صلاحیت ہی نہیں تھی کہ بہترین منصوبہ بندی والی رجیم چینج کرسکتے۔سابق صدر ٹرمپ کے مشیر قومی سلامتی کے اس اعتراف پر میزبان نے حیرانگی سے پوچھا کہ وہ رجیم چینج کی کن کوششوں کا ذکر کر رہے ہیں جس پر جان بولٹن نے برجستہ وینزویلا کا نام لیتے ہوئے کہا کہ یہ کوشش ناکام ہوگئی تھی۔جان بولٹن نے اس حوالے سے تفصیلات بتانے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ مزید تفصیلات میں نہیں جارہا لیکن میں نے اس دوران دیکھا کہ ایک اپوزیشن کو منتخب صدر کو غیر قانونی طور پر ہٹانے کے لیے کیا کچھ کرنا پڑتا ہے۔خیال رہے کہ 2019 میں جان بولٹن نے قومی سلامتی کے مشیر کی حیثیت سے وینزویلا کے اپوزیشن لیڈر جوآن گائیڈو کی ملک کے صدر نکولس مدورو کو ہٹانے کی کوششوں کی حمایت کی تھی۔
وینزویلا میں صدر مدورو کو اقتدار سے ہٹانے کی اپوزیشن کی کوششیں ناکام رہی تھیں اور منتخب حکومت کے خلاف سازش کرنے پر دو سابق امریکی فوجیوں ایرون بیری اور لیوک ڈینمن کو گرفتار کر کے دہشت گردی کا مقدمہ بھی چلایا گیا تھا۔یاد رہے کہ کئی ممالک کی منتخب حکومت کے خاتمے پر انگلیاں امریکا کی جانب اٹھتی رہی ہیں تاہم یہ پہلی بار ہے کہ کسی اعلیٰ امریکی عہدیدار نے کھلے عام رجیم چینج کا اعتراف کیا ہو۔جان بولٹن کے اس اعتراف کے بعد سوشل میڈیا پر خارجہ پالیسی کے ماہرین نے 1953 میں ایرانی قوم پرست وزیر اعظم محمد مصدق کی معزولی اور ویتنام کی جنگ، افغانستان اور عراق میں امریکی کے کردار پر کڑی تنقید کی۔