کراچی(عکس آن لائن)خواتین اور بچیوں کی جانب سے عید الفطرکے لیے تیاریاں عروج پر پہنچ گئیں جب کہ کپڑوں کی تیاری کے بعد خواتین نے میچنگ کے زیورات کی تلاش کواپنا مشن بنالیا۔عیدکے قریب آتے ہی مصنوعی زیورات کی چمک دھمک خواتین کی توجہ کا مرکز بن گئی،خواتین میں مصنوعی زیورات خریدنے کا رحجان بڑھ گیا۔مہنگائی کے باوجود خواتین عید پر سولہ سنگھار کا شوق پورا کرنے کے لیے بازاروں میں لگائے گئے عارضی اسٹالزسے زیورات خرید رہی ہیں، دکانداروں کے مطابق گزشتہ سال کی نسبت اس سال 20-30 فیصد مہنگائی ہوئی ہے۔
حیدری مارکیٹ، طارق روڈ، بہادر آباد، جامع مارکیٹ، لیاقت آباد، پی آئی بی، صدر، بوری بازار، بولٹن مارکیٹ، گلستان جوہر، شہید ملت روڈ میٹرومال، گلف سینٹر، کریم آباد، ڈالمین مال، ہائپر اسٹار سمیت شہر کے دیگر علاقے مصنوعی زیورات کے بہترین مراکز ہیں۔ماضی میں ہاتھوں سے نگینے لگانے کا رجحان بہت زیادہ تھا جبکہ اب بولٹن اور جامع بازار میں ایسی چند دکانیں ہی رہ گئیں ہیں جہاں کاریگر اپنے ہاتھوں سے نگینے لگاتے ہیں۔خواتین نے کہا کہ سونے کے زیورات کے ڈیزائن تبدیل کروانا ایک مشکل مرحلہ ہے،مصنوعی زیورات سے یہ فائدہ ہے کہ ہم ختلف تقریبات میںاپنے کپڑوں کی مناسبت سے زیورات پہن سکتے ہیں،آج کل کے دور میں90 فیصد سے زیادہ خواتین عید ،شادی دعوت سمیت دیگر تقریبات میں مصنوعی زیورات پہنتی ہیں۔
اس سال مصنوعی زیورات میں صرف چند ہی ورائٹی نظرآرہی ہے،امپورٹ اورایکسپورٹ متاثر ہونے کے سبب بازاروں میں نئے ڈیزائنز کے زیورات ملنا دشوار ہوگئے ہیں،گزشتہ سال چین اور انڈیا سے منوائے گئے جھمکے خواتین کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے تھے،مگر اس سال صورتحال منفرد ہے،بازاروںمیں انڈیا اور چین سے منوائے گئے جھمکے غائب ہوچکے ہیں۔لڑکیوں کی جانب سے کپڑوں کے ڈیزائن اور رنگوں کی مناسبت سے مصنوعی زیورات خریدے جارہے ہیں،مہنگائی اور قوت خریدکم ہونے کے سبب خواتین کی کوشش ہے کہ وہ 2 ہزار روپے تک کی میچنگ جوئیلری خریدیں،ان مصنوعی زیورات میں ہلکہ ہار ،کڑے ،انگوٹھی اور بندے شامل ہیں جبکہ بولٹن مارکیٹ مصنوعی زیورات کی بڑی مارکیٹ میں شمارہوتی ہے۔
بولٹن مارکیٹ کے مصنوعی زیورات کے صدر انوار ماموں نے کہا کہ ویسے تو بہت سے آج کل بہت سے اقسام کی زیورات چل رہے ہیں مگر شہر میں زیادہ تر منجوس، زرقون ، پترا اور فرشی کے زیورات خریدے جارہے ہیں، خواتین کی جانب سے زیادہ تر میچنگ کے زیورات خریدے جارہے ہیں جس کے باعث زرقون کے زیورات بہت پسند کیے جارہے ہیں۔ہماری دکان پر 200 روپے سے لے کر کئی ہراز تک کے زیورات موجود ہیں،سب سے مہنگے زرقون کے زیورات ہیں کیوں کہ کے زرقون امپورٹ کیا جاتا ہے،زرقون کے زیورات کے خاص بات یہ ہے کہ اس کا نگینہ کبھی نہیں نکلتا ہے،گندا ہونے کی صورت میں زرقون کے زیورات کو پالش کیا جاتا ہے جس کے بعد زیورات دوبارہ چمکدار ہوجاتے ہیں۔
دکانداروں کے مطابق خواتین کی پسند سوشل میڈیا پر موجود رجحانات کے مطابق تبدیل ہوتی رہتی ہے، بڑھتی ہوئی مہنگائی نے خواتین کو ہاتھ روک کر خریداری کرنے پر مجبور کردیا ہے،پرانے ڈیزائنز مناسب قیمتوں میں دستیاب ہیں جبکہ نئے کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں،اس کے علاوہ ہلکے ٹاپس،بالیاں بھی فروخت ہورہی ہیں۔ملازمت پیشہ خواتین غیرملکی مصنوعی زیورات کی خریداری کو ترجیح دیتی ہیں جبکہ دفاتر میں ملازمت پیشہ خاتون عالیہ نے ایکسپریس کو بتایا کہ عید کے موقع پر بھاری اور زیادہ مہنگے مصنوعی زیورات خریدنے کا فائدہ نہیں کیونکہ عید کے بعد عام معمول میں ان زیورات کا استعمال نہیں کیا جاسکتا جبکہ ہلکے اورنفیس مثلا لاکٹ اور انگوٹھیاں عام دنوں میں بھی پہنی جاسکتی ہیں۔
دکانداروں نے کہا کہ مہنگائی کے سبب متوسط اور غریب طبقے کی خواتین 1500 2000 روپے تک کے ہلکے زیورات خریدنا پسند کرتی ہیں،یہ مصنوعی زیورات کم قیمت اور خوبصورت ڈیزائن کے حامل ہوتے ہیں۔کورونا وبا کے بعد اور مہنگائی میں ہوشربا اضافے کی وجہ سے درجنوں خواتین نے گھر بیٹھے زیورات کی خریدو فروخت کا کام شروع کردیا ہے،ابتدا میں انھوں نے اس کاروبار کو مقامی سطح تک محدود کیا ہوا تھا جبکہ تجربے میں اضافہ ہونے کی وجہ سے اب انھوں نے اپنی ویب سائٹس تک بنالیں ہیں جہاں وہ نہ صرف پاکستان بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی زیورات کی خرید و فروخت کررہے ہیں۔ایسی خواتین خود مختار ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے جیسی کئی خواتین کو ملازمت کے مواقع فراہم کررہی ہیں،مڈل کلاس خاندان سے وابستہ خواتین بھی عیدکی خریداری کے دوران مہنگائی سے پریشان ہیں،طارق روڈ پر مصنوعی زیورات کی خریداری میں مصروف خاتون ثنا نے کہا کہ جدید ڈیزائنز اور معیاری مصنوعی زیورات بھی اب روزبروزمہنگے ہوتے جارہے ہیں،ایسے میں مختلف برنڈزکے مصنوعی زیورات خریدنے کا تصور بھی ممکن نہیں ہے۔
عید پر دیدہ زیب اور دلکش نظر آنے کے لیے خواتین گھنٹوں بازاروں میں گھوم کر گزار رہیں ہیں،اس مہنگائی کے دور میں لڑکیاں مصنوعی زیورات کے ذریعے سولہ سنگھار کا شوق پورا کرسکتی ہیں،اکثر خواتین کا زیادہ وقت زیورات کی خریداری میں لگ جاتا ہے۔کیونکہ میچنگ کے زیورات خریدنا خواتین کے لیے حساس واہم مسئلہ ہوتاہے اگرایک دکان پرموجود زیورات کا ڈیزائن بہت دلکش ہو مگر وہ کپڑوں سے میچ نہیں کررہاہوتو خواتین مجبور ہوکر دوسری دکانوں کا رخ کرلیتی ہیں،کیوںکہ عید کے موقع پر خواتین کا بناو سنگھار پھیکا پڑ جائے ،ایسا ممکن ہی نہیں۔
موسم گرما میں گھریلو اور ملازمت پیشہ خواتین بھاری زیورات کے بجائے ہلکے ٹاپس،لاکٹ ، بریسلیٹ اور انگوٹھیوں کا انتخاب کررہی ہیں،کیوں کہ خواتین عید کے روز بھی خاندان بھر کے لیے دعوتوں کا اہتمام کرنے میں مصروف رہتی ہیں اس لیے اکثر بھاری زیورات پہنا مشکل ہوجاتا ہے،جبکہ آج کل لڑکیاں سوشل میڈیا پر زیورات کے ڈیزائن دیکھتی ہیں جن میں زیادہ تر شائستہ اور نفیس زیورات کے تصاویر موجود ہوتی ہیں شہر کے اہم بازاروں اور مارکیٹوں میں مصنوعی زیورات کے عارضی اسٹالز لگ گئے ہیں جہاں بے شمار لوگوں کو روزگار حاصل ہوگیا ہے، ان اسٹالز پر بے انتہا رش ہے،دکانوں کی نسبت عازضی اسٹالز پر قیمتیں مناسب ہیں،دکانداروں کا کہنا ہے کہ بازاروں میں موجود مصنوعی زیورات کی رنگ و چمک خواتین کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہیں۔
خواتین کی کوشش ہے کہ اچھے ڈیزائن کی حامل کم قیمت مصنوعی زیورات خریدے جائیں، یہ ہلکے زیورات 1500-2500 روپے کے درمیان فروخت ہورہے ہیں،صنف نازک کے بناو سنگھار کا تصور زیورات کے بغیر ممکن نہیں،اس لیے ہر عمر کی خواتین کی عید کے موقع پر دیدہ زیب نظر آنے کے لیے رنگ برنگے مصنوعی زیورات خریدرہیں ہیں۔