صنعتی شعبے

حکومت کا آئندہ ماہ صنعتی شعبے پر لاک ڈاون کی پابندی کے خاتمے کا اعلان

اسلام ا ٓ باد (عکس آن لائن) وزیر اعظم کے مشیر برائے تجارت و سرمایہ کاری عبدالرزاق داود نے آئندہ ماہ صنعتی شعبے پر لاک ڈاون کی پابندی کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ صنعت کار بیرون ممالک سے تجارتی آرڈرز لینے میں ہچکچاہٹ محسوس نہ کریں،افغان ٹریڈ معاہدے پر تحفظات ہیں، اسمگلنگ روکنا ہو گی’ماسک اور کلورکین برآمد کرنے کی گنجائش رکھتے ہیں’تیل کی قیمتوں میں کمی سے معیشت کو سہارا ملے گا،بجٹ میں کسٹم محصولات پر توجہ ہو گی۔اسلام آ باد میں وائس آف امریکہ کو انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ حکومت کرونا وائرس کے باعث پیدا شدہ صورتِ حال میں نئے مواقعوں کے پیشِ نظر حکمت عملی بنا رہی ہے۔

جس کے تحت مئی میں ملکی برآمدی صنعت کو کھول دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ کرونا وائرس کے باعث عالمی معیشت یکسر بدل کر رہ گئی ہے اور اب نئی اشیا کی طلب سے برآمدی شعبے کے لیے نئے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ موجودہ صورتِ حال میں عالمی لاک ڈاون کے باوجود پاکستان کو ٹیکسٹائل، آئی ٹی، خدمات، طبی آلات اور فارما سیوٹیکل کے شعبے میں نئے آرڈرز مل رہے ہیں۔عبدالرزاق داود نے کہا کہ پاکستان نے حالیہ لاک ڈاو¿ن میں انفارمیشن ٹیکنالوجی اور خدمات کے شعبوں کو کھلا رکھا ہے۔ جس کی وجہ سے دنیا ہماری طرف دیکھ رہی ہے۔بھارت اور فلپائن میں مکمل لاک ڈاون ہے۔ ہم نے مکمل لاک ڈاون نہیں کیا خاص طور پر آئی ٹی سیکٹر، اس لیے دنیا اب متبادل کے طور پر پاکستان کی طرف دیکھ رہی ہے۔”مشیر تجارت نے بتایا کہ وفاقی کابینہ کی جانب سے منظوری دیے جانے کے بعد ماسکس کی برآمد شروع ہوگئی ہے جب کہ سینیٹائزر کی برآمد بھی جلد شروع ہوجائے گی۔اس سوال پر کہ کیا ماسکس اور سینیٹائزر کی بیرون پاکستان فروخت سے ملک میں اس کی قلت تو پیدا نہیں ہوجائے گی؟

اس کے جواب میں مشیر تجارت کا کہنا تھا کہ ہماری پیداوار کی گنجائش بہت ہے اور فی الحال این 95 اور سرجیکل ماسک برآمد نہیں کررہے بلکہ صرف کاٹن ماسکس ہی دیگر ممالک میں بھیج رہے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ مختلف ممالک کی جانب سے ہائیڈرو کلورکین کی فراہمی کی درخواست پر جرمنی اور ترکی کو خام میٹریل جب کہ سعودی عرب کو دس لاکھ ٹیبلیٹس برآمد کی جارہی ہیں۔انہوں نے واضح کیا کہ کلورکین ملکی ضرورت سے زائد مقدار میں دستیاب ہے ۔مشیر تجارت نے بتایا کہ عالمی لاک ڈاون کے باعث ملکی برآمدات میں رواں ماہ 50 فی صد تک کمی واقع ہوئی ہے۔انہوں نے کہا کہ اس حساب سے اندازہ ہے کہ رواں مالی سال ملکی برآمدات کا ہدف 25 ارب ڈالر سے کم ہوکر 21 یا 22 ارب ڈالر حاصل ہوسکے گا۔انہوں نے کہا کہ عالمی وبا کے باعث ملکی برآمدات کے ساتھ ساتھ ترسیلات زر میں بھی خاصی کمی واقع ہوئی ہے۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ درآمدات میں کمی اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں گراوٹ کے سبب جاری خسارے (کرنٹ اکاونٹ ڈیفیسٹ) پر زیادہ اثر نہیں ہو گا۔مشیر تجارت نے کہا کہ کرونا وائرس کی وجہ سے ملکی معیشت کو بڑا دھچکا لگا ہے اور ابتدائی اندازے کے مطابق مالی سال کے اختتام پر قومی پیداوار یعنی جی ڈی پی منفی آدھا(پوائنٹ فائیو) تک گر سکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ کرونا وائرس کے معیشت پر پڑنے والے مجموعی اثرات کا جائزہ لیا جارہا ہے۔ البتہ ابتدائی اندازے کے مطابق رواں مالی سال ملکی جی ڈی پی آدھا سے منفی آدھا (0.5 سے منفی 0.5 ) کے درمیان رہے گا۔مشیر تجارت نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان نے دورہ واشنگٹن کے دوران امریکی قیادت سے ‘ایڈ نہیں ٹریڈ’ یعنی مالی امداد کے بجائے تجارت کی بات کی جس پر امریکی حکومت نے پاکستانی مصنوعات کو اپنی منڈیوں تک رسائی اور دوطرفہ تجارت بڑھانے پر اتفاق کیا تھا۔تاہم انہوں نے کہا ہے کہ امریکہ کے ساتھ تجارت کے فروغ کے حوالے سے جس تیزی سے معاملات آگے بڑھنے چاہیے تھے، ویسا نہیں ہو سکا۔

عبدالرزاق داود نے بتایا کہ امریکی سیکرٹری تجارت ولبر راس کے حالیہ دورہ پاکستان پر یہ طے ہوگیا کہ تجارت کے فروغ کے لیے کن کن شعبوں پر توجہ دینی ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان نے پہلا مطالبہ یہ کیا ہے کہ سفری پابندیاں ختم کی جائیں کیوں کہ لوگ آئیں گے تو ہی تجارت بڑھ سکے گی۔ انہوں نے امریکہ سے عالمی برینڈز اور کمپنیوں کو پاکستان میں اپنے دفاتر کھولنے پر زور دیا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان چاہتا ہے کہ ٹیکسٹائل، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور خدمات کے شعبوں میں بھی اسے رسائی دی جائے۔تاہم ان کے بقول ان معاملات پر مثبت پیش رفت جاری تھی کہ کرونا وائرس کی عالمی وبا کے باعث یہ امور پس پشت چلے گئے۔مشیر تجارت نے کہا ہے کہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے پر پاکستان کو بعض تحفظات ہیں تاہم ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے میں توسیع کے لیے افغان حکومت سے بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس ضمن میں پاکستان نے اپنے تحفظات سے کابل کو آگاہ کردیا ہے جس پر آئندہ دنوں میں باقاعدہ مذاکرات کیے جائیں گے۔

عبدالرزاق داود نے کہا کہ “اصل مسئلہ یہ ہے کہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے ذریعے جو مال افغانستان جاتا ہے وہ وہاں سے سمگل ہو کہ پاکستان آ جاتا ہے جس سے ہماری صنعت کو بہت نقصان پہنچتا ہے۔”انہوں نے کہا کہ افغان حکومت سے کہا ہے کہ وہ اپنی ضرورت کے مطابق اشیا درآمد کرنے کا طریقہ کار وضع کریں تاکہ وہ سمگل ہو کہ پاکستان نہ آ سکیں۔مشیر تجارت نے بتایا کہ اس حوالے سے ہمسائیہ ملک کے ساتھ بات چیت جون سے پہلے مکمل کرلی جائے گی۔پاکستان کی حکومت نے حال ہی میں کراچی کی بندرگاہ کے علاوہ جنوب میں واقع گوادر پورٹ کو بھی افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے لیے استعمال کرنے کی اجازت دی ہے۔آئندہ مالی سال کے بجٹ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے مشیر تجارت نے کہا کہ حکومت کی توجہ براہ راست اور انکم ٹیکس کے بجائے کسٹم سے متعلقہ محصولات میں اضافے پر غور کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں غیر روایتی کاروبار بہت وسیع ہے جسے ٹیکس کے دھارے میں لانا اصل چیلنج ہے۔مشیر تجارت نے بتایا کہ آمدہ بجٹ کے حوالے سے ایکسپورٹ ٹیرف میں کوئی تبدیلی نہیں کی جا رہی اور نہ ہی ٹیکس اسلیب میں اضافہ کیا جائے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں