بیجنگ (عکس آن لائن) حال ہی میں فلپائن نے جنوبی بحیرہ چین کے معاملے پر اپنے وعدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے چین کے نانشا جزائر میں رین آئی ریف سے ملحقہ پانیوں میں بارہا غیر قانونی دراندازی کی ۔ چینی کوسٹ گارڈ نے قانون کے مطابق اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے ضروری اقدامات کیے اور فلپائن کے بحری جہازوں کو روکا ۔ فلپائن نے چینی کوسٹ گارڈ کےنفاذِ قانون کے معمول کے اقدامات کو بدنام کرنے کے لیے مظلومیت کا ڈرامہ کیا ،ساتھ ہی ” طاقتور کی جانب سے کمزور کو دھمکانے ” کا دعوی بھی کیا اور اپنے معصوم اور بے گناہ ہونے کے ناٹک کو نیا رنگ دیا ۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ فلپائن کے اس مکروہ رویے کو خطے کے آسیان ممالک کی حمایت حاصل نہیں ہو سکی ہے۔ تاہم خطے سے باہر امریکہ اپنے اتحادی ،فلپائن کے ساتھ اظہار یکجہتی اور چین پر الزام تراشی جاری رکھے ہوئے ہے جس سے تنازع کی آگ مزید بڑھ رہی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ چین کو نانشا جزائر پر ناقابل تردید خودمختاری حاصل ہے ، جو تاریخی اور قانونی ثبوت کے ساتھ ایک حقیقت ہے۔ جنوبی بحیرہ چین کے مسئلے کی تاریخ پیچیدہ ہے۔ اس کی ابتدا کی طویل کہانی پر غور کرنے کی بجائے، ہمیں صرف تنازعات سے نمٹنے میں متعلقہ فریقوں کے رویوں اور طریقوں کو دیکھنے کی ضرورت ہے، تاکہ ہم سمجھ سکیں کہ کون اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے سنجیدگی سے کام کر رہا ہے، کون لالچی ہے اور دوسروں کے مفادات کی خلاف ورزی کر رہا ہے اور کون اس افراتفری سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔
اگرچہ نانشا جزائر پر چین کی خودمختاری کی تاریخی اور قانونی بنیاد اور ثبوت بہت کافی ہیں ، لیکن چین علاقائی استحکام اور تعاون کو فروغ دینے کے لیے مشاورت کے ذریعے تنازعات کے پرامن حل کی کوشش پر زور دیتا ہے۔ سب سے پہلے، چین نے بین الاقوامی قوانین اور اصولوں کی بنیاد پر مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لیے خطے کے متعلقہ ممالک کے ساتھ اعلی سطحی مکالمے کو فعال طور پر فروغ دیا ہےاور 2002 میں آسیان کے ساتھ جنوبی بحیرہ چین میں فریقین کے طرز عمل سے متعلق اعلامیے پر دستخط کیے ہیں، جس نے جنوبی بحیرہ چین کے مسئلے کے حتمی حل کی بنیاد رکھی ہے.
اس کے علاوہ چین مشترکہ ترقی کے ذریعے تنازعات کو حل کرنے کے تصور کی فعال طور پر وکالت کرتا ہے، خطے کے ممالک کے درمیان اقتصادی، سائنسی، تکنیکی اور ثقافتی تعاون کو فعال طور پر فروغ دیتا ہے، مشترکہ طور پر وسائل دریافت کرنے کی حمایت کرتا ہے اور متعلقہ ممالک کے درمیان بحری تعاون اور سلامتی کے میکانزم کو مسلسل فروغ دیتا ہے، تاکہ خطے میں مشترکہ خوشحالی اور ترقی حاصل کی جاسکے اور تنازعات کے حتمی تصفیے کی راہ ہموار کی جاسکے۔
اب ہم فلپائن کے عمل اور اقدامات پر نظر ڈالتے ہیں ۔چین کی معاون وزیر خارجہ اور ترجمان ہوا چھن اینگ نے گزشتہ ماہ سوشل میڈیا پر انتہائی مختصر بیان میں کہا کہ فلپائن نے اپنے وعدوں کی خلاف ورزی کی، اشتعال انگیزی کے بعد مظلوم بن گیا، چین کو روکنے کے لیے امریکہ کے ساتھ ملی بھگت کی اور جان بوجھ کر 25 سال تک اپنے ایک پرانے جنگی جہاز کو چین کے رین آئی ریف پر رکھا۔
فلپائن نے وعدہ کیا تھا کہ وہ رین آئی ریف سے اپنے غیر قانونی طور پر موجود جنگی جہاز کو جلد از جلد ہٹا دے گا، لیکن اس نے اپنا وعدہ کبھی پورا نہیں کیا۔ اس کے برعکس، جنگی جہاز کی تعمیر و مرمت کر کے اسے مضبوط کرنے اور رین آئی ریف پر غیر قانونی قبضے کی کوشش میں تعمیراتی مٹیریل سے لدے بحری جہاز بھیجے جاتے رہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ کون جنوبی بحیرہ چین میں امن اور استحکام کو نقصان پہنچا رہا ہے ۔
اب آئیے جنوبی بحیرہ چین کے معاملے پر ایک غیر علاقائی ملک کی حیثیت سے امریکہ کے قول و فعل پر نظر ڈالتے ہیں۔ 20 ویں صدی کی 90 کی دہائی سے پہلے ، امریکہ نے جنوبی بحیرہ چین میں جزیروں اور چٹانوں پر خودمختاری کے تنازع پر توجہ نہیں دی تھی ، یہ سمجھتے ہوئے کہ اس کا امریکہ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے ، لہذا اس کا مداخلت کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ تاہم، جیسے جیسے امریکہ کی جانب سے چین کو دبانے کی پالیسی کے نفاذ کی رفتار میں تیزی ہوتی جا رہی ہے، جنوبی بحیرہ چین کا مسئلہ امریکہ کی عالمی حکمت عملی کی ترتیب میں شطرنج کا ایک نیا مہرہ بن گیا ہے۔
جولائی 2020 میں ، امریکہ نے جنوبی بحیرہ چین میں چین کے سمندری دعووں پر امریکی موقف پر ایک بیان جاری کیا ، جس میں الزام عائد کیا گیا کہ ” جنوبی بحیرہ چین کے زیادہ تر حصے پر بیجنگ کے آف شور وسائل کے دعوے مکمل طور پر غیر قانونی ہیں”۔ خطے سے باہر ایک ملک کی حیثیت سے امریکہ نے تنازعات کے حل کے لئے مذاکرات اور مشاورت کو فروغ دینے کے بجائے ، ایک بار پھر جانب داری کا انتخاب کرکے ایک فریق کو دوسرے فریق سے لڑانے اور جلتی پہ تیل ڈالنے کومعمول بنا لیا ہے۔ چین اور فلپائن کے درمیان حالیہ تنازع کے جواب میں امریکہ نے مسلسل فلپائن کی حوصلہ افزائی کی ۔دونوں فریقوں نے جنوبی بحیرہ چین میں متعدد فوجی مشقیں اور مشترکہ گشت کیے اور جاپان اور آسٹریلیا کو بھی ان فوجی سرگرمیوں میں شامل کیا ۔
جنوبی بحیرہ چین کے مسئلے کے حل کے لیے خطے کے تمام ممالک کی مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے اور یہ مذاکرات اور مشاورت کے ذریعےحل کیا جا سکتا ہے ۔ جنوبی بحیرہ چین کے معاملے میں ایک غیر متعلقہ ملک کی حیثیت سے امریکہ کی مداخلت علاقائی امن و استحکام کو شدید نقصان پہنچا سکتی ہے۔
دنیا کے دو بڑے ممالک کی حیثیت سے چین اور امریکہ کو باہمی احترام اور مساوات کے اصولوں پر عمل کرنا چاہیے اور اختلافات کو بات چیت اور مشاورت کے ذریعے حل کرنا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی برادری کو چاہیے کہ وہ ایشیا بحرالکاہل کےخطے میں خوشحالی اور ترقی کے حصول کے لیے جنوبی بحیرہ چین کے مسئلے کے پرامن حل کے لیے مشاورت اور تعاون کو مضبوط بنائے۔ دنیا میں پہلے ہی بہت سی جنگیں جاری ہیں اور افراتفری پھیلی ہوئی ہے ، ایسے میں بین الاقوامی برادری کو جنوبی بحیرہ چین کے مسئلے کے پرامن حل کے لیے آواز اٹھانی چاہیے، محاذ آرائی کے خطرے کو بڑھانے والی آگ کو روکنا چاہیے اور جنوبی بحیرہ چین کو خطے اور دنیا میں امن کی راہداری بنانا چاہیے، جو کسی اور میدان جنگ کے بجائے ترقی کی متحرک قوت کا سمندر ہے۔