اسلام آباد (عکس آن لائن)جمعیت العلمائے اسلام (ف) کی مجلس عامہ کی جانب سے کیے جانے والے فیصلے کے تحت پارٹی سے نکالے جانے والے سینئر سیاستدان حافظ حسین احمد نے کہا ہے کہ ملک میں جمہوریت کے قیام اور اظہار رائے کی آزادی کے دعویدار جمعیت میں موروثیت کے قائل ہیں۔
ایک انٹرویومیں حافظ حسین احمد نے کہا کہ انہوں نے جمعیت العلمائے اسلام میں اس وقت شمولیت اختیار کی تھی جب مرحوم مولانا مفتی محمود سربراہ تھے۔ انہوں نے کہا کہ 1973 میں جب انہوں نے شمولیت اختیار کی تھی تو اس کی رسید حضرت مولانا مفتی محمودنے باقاعدہ اپنے دستخط سے دی تھی ، مولانا فضل الرحمان نے جمعیت میں شمولیت 80ـ81 میں اختیار کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ اسی طرح مولانا شیرانی بھی جمعیت کے بانی اراکین میں سے ہیں۔
سابق سینیٹر حافظ حسین احمد نے کہا کہ نہ تو جمعیت العلمائے اسلام (ف) سے نکالے جانے کا انہیں کوئی نوٹس بھیجا گیا اور نہ ہی فرد جرم عائد کی گئی بلکہ ایک ڈکٹیٹرانہ انداز میں پارٹی سے نکال دیا گیا جس کی اطلاع میڈیا کے ذریعے مجھے ملی ہے۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے یاد دلایا کہ جب مولانا شیرانی نے مولانا فضل الرحمان کے مقابلے میں صدارت کیلئے اپنا نام تجویز کیا تھا جیسا کہ کسی بھی شخص کا جمہوری حق ہے تو اس وقت مولانا فضل الرحمان نے پشاور میں تین دن تک جنرل کونسل کا اجلاس نہیں ہونے دیا تھا کیونکہ ان کی خواہش اور کوشش تھی کہ وہ بلامقابلہ صدر منتخب ہوں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت چند افراد نے مداخلت کی تھی اور اکھٹے رکھنے کے لیے مولانا شیرانی کو سمجھایا تھا کہ وہ اس مرتبہ اپنا نام واپس لے لیں اور آئندہ اپنا نام پیش کریں تو وہ بات مان گئے تھے۔
جے یو آئی کے بنیادی آئین کے حوالے سے انہوں نے تسلیم کیا کہ ابتدا میں ایک دو مرتبہ کے بعد پھر کسی اور کے لیے عہدہ چھوڑنا ہوتا تھا اورصدر منتخب ہونا ممکن نہیں تھا تاہم جب مولانا فضل الرحمان منتخب ہوئے تو پہلے انہوں نے کوشش کی کہ انہیں تاحیات صدر منتخب کرلیا جائے مگر جب مخالفت ہوئی تو پھر چھوٹی ترمیم کی جس کے تحت اب وہ مسلسل صدر ہیں۔مولانا فضل الرحمان کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اپنے بھائی، بیٹے، برادر نسبتی اور چند دیگر رشتہ داروں کو جن کی تعداد 15/46 بنتی ہے، کو انہوں نے ٹکٹیں دیں اورپرانے لوگوں کو بائی پاس کیا۔ انہوں نے کہا کہ اسی طرح سینیٹ کے ٹکٹوں میں ہوا جس کی باقاعدہ شکایات بھی کی گئیں۔ انہوں نے کہا کہ پارٹی اجلاس میں اس پر بات بھی کی گئی اور وجہ بھی سامنے تھی۔حافظ حسین احمد نے کہا کہ ایک ٹی وی اینکر نے ان سے پوچھا کہ آپ کہتے ہیں کہ اسلام آباد میں میرے پاس جھونپڑی بھی نہیں ہے تو جس کروڑوں روپے مالیت کے بنگلے میں بیٹھے ہیں، یہ کس کا ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ یہ دوست نے لے کر دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہرمرتبہ اور ہروقت خاموش رہنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری کوشش تھی کہ گھر کی باتیں گھر میں رہیں تو پارٹی میں سوالات اٹھائے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہی چاروں افراد جنہوں نے اعتراضات کیے تھے وہ پارٹی سے نکال دیے گئے ہیں۔ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ مولانا گل نصیب خان کو ٹکٹ ملا جیسا کہ پارٹی کا فیصلہ تھا تاہم وہ الیکشن ہار گئے جب کہ بھائی جیت گئے تو یہ سب کیسے ہوا؟ انہوں نے کہا کہ چار افراد کو نکالنے کے ساتھ ہی یہ حکم بھی جاری کیا گیا ہے کہ جو ان سے ملا اس کو بھی نکال دیں گے۔
انہوں نے استفسار کیا کہ یہ جمہوریت کی کون سی قسم ہے کہ اختلاف رائے سب سے بڑا جرم قرار دے دیا گیا؟ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ مجھ سے تو پہلے بھی دو تین مرتبہ اختلاف ہو چکا ہے اور مجھ سے عہدے وغیرہ واپس لیے جا چکے ہیں جبکہ اس مرتبہ میرا بنیادی قصو یہ تھا کہ جب کوئٹہ جلسے میں میاں نواز شریف نے فوجی قیادت پر الزامات عائد کیے تو میں نے برملا کہا کہ یہ نواز شریف کا ذاتی مؤقف ہے اور پی ڈی ایم یا جے یو آئی کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
حافظ حسین احمد سے جب پوچھا گیا کہ پی ڈی ایم کا مستقبل کیا ہوگا؟ تو انہوں نے برملا کہا کہ ہم نے ابتدا میں کہا تھا کہ یہ استعفے نہیں دیں گے تو اب نہیں دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسی طرح اس بات کی بھی نشاندہی کی تھی کہ آزادی مارچ کی طرح دھوکہ دیں گے تو وہ بھی قریب ہے۔حافظ حسین احمد نے کہا کہ ہم سب جمعیت العلمائے اسلام پاکستان کے اراکین تھے اور ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ف کا اضافہ تو مولانا فضل الرحمان نے کیا تھا، آئندہ کی حکمت عملی سے متعلق سوچ بچار کریں گے اورمشاورت بھی ہو گی۔