اسلام آباد (عکس آن لائن) وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہاہے کہ افغانوں کو قابل قبول جامع مذاکرات کے ذریعے افغان مسئلے کے دیرپا اور مستقل سیاسی حل کے خواہشمند ہیں ،پاکستان، افغان امن عمل سمیت خطے میں قیام امن کیلئے اپنی مصالحانہ کاوشیں جاری رکھے گا ،جرمن وزیر خارجہ سے صدر بائیڈن کی طرف سے 11 ستمبر سے پہلے افغانستان سے افواج کے انخلا کو مکمل کرنے کے اعلان اور امن و امان کی صورتحال پر تبادلہ خیال ہوا ،ہم خطے میں قیام امن کیلئے کی جانے والی کاوشوں میں شراکت دار ہیں ۔
جرمنی کے وزیر خارجہ ہائیکو ماس کا وزارت خارجہ پہنچے پر وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے معزز مہمان کا خیر مقدم کیا جس کے بعد دونوں وزرائے خارجہ کے مابین وزارتِ خارجہ میں ملاقات ہوئی ،ملاقات میں کرونا وبائی چیلنج، دو طرفہ تعلقات، خطے کی صورتحال ،افغان امن عمل سمیت باہمی دلچسپی کے مختلف امور پر تبادلہ خیال ہوا۔ شاہ محمود قریشی نے کہاکہ برلن میں جب میری جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس کے ساتھ ملاقات ہوئی تو دو طرفہ تعلقات پر ہمارے درمیان تفصیلی تبادلہ خیال ہوا ۔انہوںنے کہاکہ جرمن وزیر خارجہ نے افغانستان جانے سے پہلے ضروری سمجھا کہ وہ پاکستان کا نکتہ نظر کو جان لیں ۔
شاہ محمود قریشی نے کہاکہ ہم نے بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے افغانستان سے افواج کے انخلاء کے اعلان کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا ۔ شاہ محمود نے کہاکہ پاکستان،ایک پر امن اور مستحکم افغانستان کا خواہاں ہے ۔ شاہ محمود قریشی نے کہاکہ افغانستان میں قیام امن سے خطے میں روابط کو فروغ ملے گا اور تعمیر و ترقی کا حصول ممکن ہو سکے گا ۔ انہوںنے کہاکہ ہم افغان قیادت میں، افغانوں کو قابل قبول جامع مذاکرات کے ذریعے افغان مسئلے کے دیرپا اور مستقل سیاسی حل کے خواہشمند ہیں ،پاکستان، افغان امن عمل سمیت خطے میں قیام امن کیلئے اپنی مصالحانہ کاوشیں جاری رکھے گا ۔وزیر خارجہ نے کرونا وبائی صورتحال کے دوران جرمن ہم منصب کے دورہ پاکستان کو سراہا ۔وزیر خارجہ نے پاکستان کو کرونا ویکسین کی اضافی ڈوزز بھجوانے پر جرمن وزیر خارجہ کا شکریہ ادا کیا۔
وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ جرمنی کے وزیر خارجہ کے ساتھ بہت اچھی نشست رہی،کچھ روز قبل میری برلن میں جرمن وزیر خارجہ کے ساتھ تفصیلی ملاقات ہوئی ۔ انہوںنے کہاکہ ہم نے دو طرفہ تعلقات اور کثیرجہتی شعبہ جات میں دو طرفہ تعاون کے میسر مواقعوں کا جائزہ لیا ،ہم نے خطے کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا ۔
انہوںنے کہاکہ کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے حوالے سے میں نے انہیں بریف کیا،ہم نے دو طرفہ اقتصادی تعاون میں اضافے کے مختلف پہلوؤں پر غور و خوض کیا۔انہوںنے کہاکہ جرمن وزیر خارجہ اسلام آباد تشریف لائے انہیں آگے کابل، افغانستان جانا ہے،انہوں نے ضروری سمجھا کہ پہلے پاکستان کے نکتہ نظر سے آگاہی حاصل کی جائے۔ انہوںنے کہاکہ صدر بائیڈن کی طرف سے 11 ستمبر سے پہلے افغانستان سے افواج کے انخلا کو مکمل کرنے کے اعلان اور امن و امان کی صورتحال پر تبادلہ خیال ہوا ،میں نے پاکستان کا نکتہ نظر جرمن وزیر خارجہ کے سامنے رکھا،میں نے انہیں بتایا کہ ابھی بھی دوحہ میں قیام امن کیلئے کوششیں جاری ہیں ،ہماری تو یہی خواہش ہے کہ افغان آپس میں مل بیٹھ کر معاملات کو طے کریں،پاکستان تو یہی چاہتا ہے کہ افغانستان میں امن و استحکام ہو اور اس کے نتیجے میں علاقائی روابط میں اضافہ ہو ،ہمارے ہاں سرمایہ کاری ہو اور روزگار کے مواقع پیدا ہوں اور خطے کو مجموعی طور پر فائدہ ہو۔
انہوںنے کہاکہ ہم خطے میں قیام امن کیلئے کی جانے والی کاوشوں میں شراکت دار ہیں ۔ انہوںنے کہاکہ جرمنی کے ساتھ ہماری دو طرفہ تجارت کے حجم میں اضافے کے امکانات موجود ہیں،کرونا وبا کے دنوں میں یہاں روس کے وزیر خارجہ تشریف لائے ،میں، انہی دنوں جرمنی کے دورہ پر گیا،میں یو اے ای، ایران، اور ترکی گیا،آج جرمنی کے وزیر خارجہ دوبارہ مجھ سے آ کر ملے جبکہ کل ھنگری کے وزیر خارجہ پاکستان تشریف لا رہے ہیں ،یہ سب غیر معمولی نوعیت کی پیش رفت ہے۔