اسلام آباد(عکس آن لائن) وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے قانونی اصلاحات و احتساب عرفان قادر نے کہا ہے کہ جب تک نئے الیکشن نہیں ہوتے نگران حکومت رہے گی، آئین میں کہیں نہیں لکھا کہ سوموٹو کا اختیار صرف چیف جسٹس کو ہے،جہاں جموری اقدار ہیں وہاں ادارے اپنے اختیار میں ہوتے ہیں، یہ نہیں ہوتا کہ ایک ادارہ دوسرے پر چڑھ دوڑے، یہاں جوڈیشلائزیشن آف پالیٹکس ہورہی ہے، پارلیمان عدالت کے خلاف ہر گز نہیں کھڑی، حکومت چاہتی ہے عدلیہ مضبوط ہو، عدلیہ کے اندر بھی لڑائی چل رہی ہے،
پانامہ کیس کا عنوان عمران نیازی بنام نواز شریف تھا، فیصلہ ہوا تو میاں صاحب پر کیسز بنے اور وہ نااہل ہوئے، خان صاحب وزیراعظم بنے، پیر کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے قانونی اصلاحات و احتساب عرفان قادر نے کہا کہ جہاں جموری اقدار ہیں وہاں ادارے اپنے اختیار میں رہتے ہیں، یہ نہیں ہوتا کہ ایک ادارہ دوسرے پر چڑھ دوڑے، عزت آئین کی ہے ہم سب اس کے تابع ہیں، آئین میں انسان کی عزت نفس کا لکھا ہوا ہے، ہم سب انسان ہیں ہمیں آئین کو فوقیت دینی ہے،
انہوں نے کہا کہ کوئی فرد واحد کنٹرول کرنا شروع کردے آئین کا یہ تقاضہ نہیں، یہاں جوڈیشلائزیشن آف پالیٹکس ہورہی ہے، چند کیسز میں سیاست کو اپنی ڈگر پر چلانے کی کوشش کی گئی، سپریم کورٹ نے توہین عدالت پر یوسف رضا گیلانی کو گھر بھیجا، پانامہ کیس کا عنوان عمران نیازی بنام نواز شریف تھا، فیصلہ ہوا تو میاں صاحب پر کیسز بنے اور وہ نااہل ہوئے، خان صاحب وزیراعظم بنے،عرفان قادر نے کہا کہ پاناما کیس کے 5ججزمیں سے ایک جج آج بھی موجود ہیں، پانامہ میں مریم بی بی کو بھی سزا ہوئی، دو حکومتیں عدالت نے گرائیں،
مرضی کے بینچ بنتے رہے، وزیراعظم کا منصب نہیں کہ سپریم کورٹ کے پیغامات باہر کی دنیا کو پہنچائے،وزیراعظم کے معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ ایک کیس نواز شریف کا پارٹی ہیڈ ہونے یا نہ ہونے کا تھا، جسٹس ثاقب نثار نے بینچ کے ہمراہ تاحیات نااہل کیا، سب جانتے ہیں ڈیم فنڈ میں کیا ہوا، پہلی دفعہ سپریم کورٹ ڈیم بنانے چلی تھی، انہوں نے سوموٹو کیس میں چیف جسٹس کو حد سے زیادہ طاقتور بنانے کی کوشش کی،انہوں نے کہا کہ نوازشریف نااہل ہوئے تو سوال اٹھا کہ نااہلی کی مدت کیا ہو گی؟،
ایک بینچ نے کہہ دیا کہ تاحیات نااہلی ہے حالانکہ آئین میں نہیں لکھا، تاحیات سزا تو خوفناک جرائم میں بھی نہیں، تیسرے کیس میں کہا گیا اب وہ پارٹی سربراہ بھی نہیں رہ سکتے،عرفان قادر کا کہنا تھا کہ ایک کیس بنی گالا کی پراپرٹی سے متعلق بھی تھا، بنی گالا پراپرٹی کیس میں بھی بینچ اسی طرح کا تھا، ثاقب نثار اور عمر عطا بندیال صاحب ایسے ہر بینچ میں تھے،وزیراعظم کے معاون خصوصی نے کہا کہ عدم اعتماد کی تحریک مسترد کرنے کا معاملہ بھی آیا، اس پر بھی بینچ بنا تو وہی لوگ شامل تھے، مذکورہ بینچ کے فیصلے کا ایک حصہ ٹھیک تھا، دوسرے حصے میں کہا گیا منحرف اراکین کا ووٹ گنا نہیں جائے گا، ایک تشریح کرکے پنجاب حکومت گرادی گئی، پھر الیکشن کی تاریخ دینے کی درخواست سپریم کورٹ آئی، کہیں نہیں لکھا کہ الیکشن کی تاریخ سپریم کورٹ دے گی،
کہہ دیا گیا پنجاب الیکشن کی تاریخ صدر، کے پی میں گورنر دیں گے، الیکشن نہ ہونے پر دوبارہ کیس چلا 14مئی کی تاریخ دے دی گئی،عرفان قادرنے کہا کہ اس وقت عدلیہ کے اندر ایک تقسیم ہے، حکومت یا پارلیمان عدلیہ کیخلاف نہیں کھڑی، توہین عدالت کا اختیار اپنی انا کیلئے استعمال نہیں ہونا چاہئے، معزز قومیں ایسے اختلافات کو مل کر حل کرتی ہیں، موجودہ حکومت عدلیہ کو مضبوط دیکھنا چاہتی ہے، عدلیہ میں کوئی تقسیم ہے تو چیف جسٹس اسے ختم کرائیں،انہوں نے کہا کہ عدلیہ میں ججز کی تقرری کچھ لو کچھ دو پر نہیں ہونی چاہئے،
جوڈیشل کمیشن کے ہر ممبر کو چاہئے وہ ایک ایک بندہ نامزد کرے، سنیارٹی کی بنیاد پر کسی کو بھی اوپر آنا چاہئے، الگ آئینی عدالتوں کے قیام کی تجویز اچھی ہے، خصوصی عدالتوں میں وکلا اور ججز کو ہی رکھنا ہے یا نہیں، پارلیمان، وکلا اور میڈیا سے بھی لوگ لائے جا سکتے ہیں،وزیراعظم کے معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کور کرنے والے رپورٹرز کو نئے ججز سے زیادہ آئین و قانون آتا ہے، جب تک نئے الیکشن نہیں ہوتے نگران حکومت رہے گی، نگران حکومت کے جانے کا کوئی وقت مقرر نہیں، جب تک نئی حکومت منتخب ہوکر نہیں آتی نگران حکومت رہے گی۔