نیٹو

ترکیہ میں انتخابات کے بعد سویڈن کے بارے میں فیصلہ قابل رسائی ہوگیا، نیٹو

اوسلو(عکس آن لائن)معاہدہ شمالی اوقیانوس کی تنظیم (نیٹو)کے سیکریٹری جنرل جینز اسٹولٹن برگ نے کہا ہے کہ سویڈن کی رکنیت کے بارے میں فیصلہ جولائی میں لیتھوینیا کے دارالحکومت ویلنیئس میں ہونے والے اتحاد کے سربراہ اجلاس تک قابل رسائی اور بالکل ممکن ہے۔

ترکیہ میں منعقدہ حالیہ انتخابات کے بعد ایک کھڑکی کھل گئی ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق جینز اسٹولٹن برگ نے ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فی الوقت ہمیں اس بارے میں کوئی یقین نہیں،مگر میرا پیغام یہ ہے کہ یہ پہنچ میں ہے،ویلنیئس سربراہ اجلاس میں سویڈن کی مکمل رکن کے طور پر شمولیت ممکن ہے۔انھوں نے کہا کہ اب ایک کھڑکی موجود ہے، خاص طور پر ترکیہ میں صدارتی انتخابات کے بعد اور ترک پارلیمان کی تشکیل کے بعد۔ یقینا یہ ممکن ہے، ہم جتنا جلدی ممکن ہو سکے اس کے لیے سخت محنت کر رہے ہیں۔اسٹولٹن برگ نے زور دے کر کہا کہ وہ انقرہ میں حکام کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔میں ترک حکام کے ساتھ قریبی اور مسلسل رابطے میں ہوں، تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ سویڈن جلد از جلد تنظیم کا مکمل رکن بن جائے مگر اس کی کوئی ضمانت نہیں ہے لیکن کسی حل تک پہنچنا اور ویلنیئس سربراہ اجلاس کے ذریعے سویڈن کی مکمل رکنیت کا فیصلہ ممکن ہے۔

ترکیہ سویڈن کو نیٹو کی رکنیت دینے کا مخالف ہے۔اس نے اس کی تنظیم کے لیے درخواست پر یہ اعتراض کیا تھا کہ اسٹاک ہوم کرد عسکریت پسندوں یعنی کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے)کی حمایت کررہا ہے۔انقرہ پی کے کے کو ایک دہشت گرد تنظیم سمجھتا ہے۔ترکیہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ سویڈن درجنوں مشتبہ دہشت گردوں خاص طور پر فتح اللہ گولن کے پیروکاروں کی حوالگی میں ناکام رہا ہے،ان پر انقرہ ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے خلاف 2016 کی ناکام بغاوت کی کوشش کا الزام لگاتا ہے۔

اسٹولٹن برگ نے اعتراف کیا کہ ترکیہ کے سلامتی سے متعلق جائز خدشات ہیںاور نیٹو کے کسی دوسرے اتحادی کو ترکیہ سے زیادہ دہشت گرد حملوں کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہے۔ تاہم انھوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ سویڈن نے گذشتہ سال میڈرڈ میں ہونے والے سربراہ اجلاس میں طے شدہ معاہدے پر عمل کیا ہے۔اس میں فن لینڈ اور سویڈن کی نیٹو کی رکنیت کے لیے کوششوں کی انقرہ کی جانب سے حمایت کی تصدیق کی گئی تھی کیونکہ دونوں ممالک نے سکیورٹی اور انسداد دہشت گردی میں تعاون پر اتفاق کیا تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں