اسلام آباد (عکس آن لائن)وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ تحریک عدم اعتماد لانا اپوزیشن اور اس کا مقابلہ کر نا ہمارا آئینی حق ہے ،اپوزیشن اراکین تحریک لائیں ،ہم آئینی طریقے اور پارلیمانی انداز سے بھرپور مقابلہ کریں گے، پی ڈی ایم کی صفوں میں یکسوئی نہیں ہے ،پورا یقین ہے اپوزیشن کامیاب نہیں ہوگی ،تحریک انصاف کے نشان پر کامیاب ہونے والے تمام ممبران قومی اسمبلی ڈٹ کر اپنے قائد اور کپتان کا دفاع کریں گے
پی ڈی ایم کی طرف سے تحریک عدم اعتماد لانے کے اعلان پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے انہوںنے کہاکہ ہمیں نے پی ڈی ایم کی طرف سے تحریک عدم اعتماد لانے کا اعلان سنا ہے۔ انہوںنے کہاکہ تحریک عدم اعتماد لانا ان کا آئینی استحقاق ہے اور اس کا مقابلہ کرنا ہمارا آئینی حق ہے۔ انہوںنے کہاکہ اگر وہ تحریک لانا چاہتے ہیں تو بالکل لائیں ہم ان کا آئینی طریقے اور پارلیمانی انداز سے بھرپور مقابلہ کریں گے ۔
انہوںنے کہاکہ تحریک انصاف کے جتنے اراکین قومی اسمبلی ہیں اور جتنی ہماری حلیف جماعتیں ہیں ہم سب کا سیاسی و اخلاقی فرض بنتا ہے کہ سب مل کر اس تحریک کو شکست دیں۔ انہوںنے کہاکہ 2018 کے انتخابات کے فوری بعد اپوزیشن نے اپنی کارروائیوں کا آغاز کر دیا تھا ۔ وزیر خارجہ نے کہاکہ انہوں نے وزیر اعظم عمران خان صاحب کو اسمبلی میں پہلی تقریر بھی جم کر نہیں کرنے دی۔ شاہ محمود قریشی نے کہاکہ ان کے ارادے پہلے دن سے واضح دکھائی دے رہے تھے، انہوں نے بارہا کوششیں کیں لیکن انہیں پے در پے ناکامیاں ہوئیں۔
وزیر خارجہ نے کہاکہ میں پر امید ہوں کہ ان کی یہ کوشش بھی کامیاب نہیں ہو گی۔ شاہ محمود قریشی نے کہاکہ تحریک انصاف کے نشان پر کامیاب ہونے والے تمام ممبران قومی اسمبلی ڈٹ کر اپنے قائد اور کپتان کا دفاع کریں گے۔ وزیر خارجہ نے کہاکہ ہمارے پاس ہر لحاظ سے دفاع کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ انہوںنے کہاکہ اپوزیشن کے پاس اگر ووٹ مکمل ہوتے تو وہ حکومت میں ہوتے کیونکہ ان کے پاس ووٹ پورے نہیں ہیں لہذا وہ دائیں بائیں دیکھیں گے ۔ انہوںنے کہاکہ اس وقت پارلیمنٹ اپنے چوتھے سال میں ہے اور بلدیاتی انتخابات کے اعلانات ہو رہے ہیں۔
انہوںنے کہاکہ میں سمجھتا ہوں کہ ایسے وقت میں کوئی بھی سیاسی شعور رکھنے والا سیاستدان اور پارلیمینٹیرین اپنے بلدیاتی حلقوں پر توجہ کو چھوڑ کر، ان کی تحریک کا حصہ بننے پر آمادہ نہیں ہو گا۔ انہوںنے کہاکہ پی ڈی ایم کی اپنی صفوں کے اندر ابھی تک یکسوئی نہیں ہے البتہ تحریک عدم اعتماد، ان کی قیادت کی خواہش اور ضرورت ہو سکتی ہے ، یہ ان پر مقدمات کے دباؤ کا تقاضا بھی ہو سکتا ہے۔