اوٹاوا(عکس آن لائن)کینیڈا نے تارکینِ وطن کا بوجھ کم کرنے کے لیے امیگریشن پالیسی تبدیل کی ہے۔ اس کا بنیادی مقصد کینیڈا آنے کی خواہش رکھنے والوں کی تھوڑی سی حوصلہ شکنی ہے۔ اسٹوڈنٹ ویزا پر کینیڈا آنے والوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے جس کے نتیجے میں رہائش کے مسائل بھی پیدا ہو رہے ہیں اور بنیادی ڈھانچے پر بھی دبا بڑھ رہا ہے۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق کینیڈا کے متعدد شہروں میں مکانات اور اپارٹمنٹس کے کرائے بہت بڑھ گئے ہیں۔
اس کے نتیجے میں مقامی باشندوں کے لیے رہائش کے مسائل اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ حکومت سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ تارکینِ وطن کی آمد روکی جائے تاکہ مقامی لوگ ڈھنگ سے رہ سکیں۔کینیڈین حکومت نے امیگریشن پالیسی میں تبدیلیاں تو کی ہیں مگر ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس وقت کینیڈا میں 33 فیصد کاروباری سیٹ اپ تارکینِ وطن کے ہیں۔ تارکینِ وطن نے کینیڈا کو اپنا مستقل مستقر بناکر وہاں بڑے پیمانے پر کاروباری سرگرمیاں شروع کی ہیں۔ اگر انہوں نے اپنے اپنے کاروبار سمیٹ کر ملک سے رخصت ہونے کا سوچا تو؟ ایسی صورت میں کینیڈا کی معیشت کو شدید دھچکا لگ سکتا ہے۔کم و بیش 83 لاکھ بیرونی افراد کینیڈا کو اپنا وطن قرار دیتے ہیں۔
یہ مجموعی آبادی کا 23 فیصد ہیں۔ کینیڈین حکومت کی طرف سے امیگریشن پالیسی اور امیگریشن قوانین میں تبدیلیوں کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کینیڈا کے امیگریشن سے متعلق امور کے وکلا کی انجمن نے چند تجاویز پیش کی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ تارکینِ وطن کی آمد کو اچانک بہت بڑے پیمانے پر روکنے سے خرابیاں پیدا ہوں گی۔امیگریشن، ریفیوجیز اینڈ سٹیزن شپ کینیڈا (آئی آر سی سی) نامی تنظیم نے بتایا ہے کہ تارکینِ وطن نے کینیڈا کی ترقی و خوش حالی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
اس وقت بھی تعمیرات، صحتِ عامہ اور خوردہ فروشی کے شعبوں میں تارکینِ وطن کی ملکیت والے کاروباری ادارے بڑے پیمانے پر ملازمتوں کے مواقع بھی پیدا کر رہے ہیں۔کینیڈا کا رخ کرنے والوں میں نمایاں طور پر بڑی تعداد بھارتی طلبہ کی ہے۔ 2023 کے دوران بیرونی طلبہ میں ان کا تناسب 37 فیصد سے زائد تھا۔ اس عدم توازن کو روکنے پر توجہ دی جارہی ہے۔ کینیڈا کی حکومت نے 2 سال کے لیے نئے بیرونی طلبہ کی آمد روکنے کی پالیسی اپنائی ہے۔