اسلام آباد(عکس آن لائن )بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کا 144 واں یوم پیدائش ملی جوش و خروش سے منایا گیا ، دن کا آغاز نماز فجر کے بعد خصوصی دعا وں سے ہوا ، قائد اعظم کی روح کے ایصال ثواب کیلئے فاتحہ خوانی کی گئی۔وفاقی دارالحکومت میں 31 جب کہ صوبائی دارالحکومتوں میں 21 ، 21 توپوں کی سلامی دی گئی،یوم قائد اعظم کی مناسبت سے ملک بھر میں سیمینار اور کانفرنسز کا اہتمام کیا گیا ،صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی، وزیراعظم عمران خان، اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے اقوام عالم میں ایک باعزت مقام حاصل کرنے کیلئے قائداعظم محمد علی جناح کے سنہری اصولوں پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت پر زور دیا۔
بدھ کو بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح کا 144 واں یوم پیدائش انتہائی عقیدت واحترام اور ملی جوش وخروش سے منایا گیا ۔دن کا آغاز نماز فجر کے بعد خصوصی دعا وں سے کیا گیا جس میں قائداعظم محمد علی جناح کی روح کے ایصال ثواب کیلئے فاتحہ خوانی اور دعائے مغفرت کی گئی۔وفاقی دارالحکومت میں 31 جبکہ صوبائی دارالحکومتوں میں 21، 21 توپوں کی سلامی دی گئی۔ مزار قائد پر گارڈز کی تبدیلی کی تقریب بھی منعقد ہوئی جس میں اعلی حکومتی، عسکری اور سیاسی شخصیات شریک ہوئیں، اس موقع پر مزار قائد پر پھولوں کی چادریں چڑھائی گئیں اور فاتحہ خوانی کی گئی۔
یوم قائداعظم کی مناسبت سے لاہور سمیت ملک بھر میں سیمینار، کانفرنسز اور مذاکروں کا اہتمام کیا گیا جن میں بابائے قوم کی مسلمانان ہند اور پاکستان کے قیام کے لئے کی جانے والی انتھک اور ناقابل فراموش خدمات کے اعتراف کے طور پر خراج تحسین پیش کیا گیا ۔سرکاری اور نجی ٹی وی چینلز اور ریڈیو پاکستان سے بانی پاکستان کی شخصیت کے حوالے سے خصوصی پروگرام پیش جبکہ اخبارات اور رسائل خصوصی مضامین شائع کئے گئے ۔کراچی کی بندرگاہ کے قریب واقع وزیر منشن میں 1876 میں گجراتی تاجر جناح بھائی پونجا کے گھر آنکھ کھولنے والے محمد علی جناح آنے والے برسوں میں مسلمانان ہند کے میر کارواں بن گئے اور عرصہ دراز سے استحصال میں پھنسی قوم کو اپنی سیاسی بصیرت کی وجہ سے الگ مملکت کی شناخت دی۔برصغیر میں ایک آزاد مسلم ریاست کے قیام کا وہ دیرینہ خواب جو مسلمانان ہند دو صدیوں سے دیکھتے چلے آ رہے تھے, 14 اگست کو شرمندہ تعبیر ہوا۔
اس خواب کی تعبیر ایک فرد واحد کی چشم کرشمہ ساز کا نتیجہ تھی اور وہ قائد اعظم محمد علی جناح تھے۔یہ حقیقت ہے کہ تاریخ کے انتہائی نازک موڑ پر جب ہندوستان کے مسلمان اپنی بقا اور سلامتی کی جانب سے بڑی حد تک مایوس ہو چکے تھے۔ قائداعظم نے تدبر، غیر متزلزل عزم, سیاسی بصیرت اور بے پناہ قائدانہ صفات سے کام لے کر مسلمانوں کو سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح متحد کر دیا تھا۔1948 بابائے قوم کی زندگی کا آخری سال تھا، اگرچہ آپ نے اپنی سیاسی زندگی نہایت تن دہی سے گزاری، مگر قیام پاکستان کے بعد نومولود مملکت کے مسائل ایسے نہ تھے جنہیں قائد نظر انداز کر دیتے۔
انھوں نے قوم کے سنہرے مستقبل کو اپنی بیماری پر ترجیح دی۔پے در پے مصروفیات کی وجہ سے بابائے قوم کی صحت جواب دے گئی۔ یوں 11 ستمبر کو پاکستانی قوم کے ناخدا، فراست اور ذہانت کے پیکر محمد علی جناح ہمیشہ کے لیے اللہ کی رحمت میں پہنچ گئے۔