ایڈیلیڈ ٹیسٹ کی تاریخ ساز شکست کے بعد پاکستان کرکٹ کا خدا ہی حافظ۔۔۔
عبدالستار ہاشمی
ایڈیلیڈ میں نہ باوٓلنگ چلی اور نہ ہی بیٹنگ، کینگروز کی پانچوں انگلیاں گھی میں تھیں،انہوں نے باوٓلنگ میں بھی تباہ کاریاں مچائیں اور بیٹنگ میں بھی پاکستانی باوٓلرز کی خوب دھلائی کی
بال ٹمپرنگ کا اتنا بڑا سکینڈل سمتھ اور وارنر کے ناموں کے ساتھ منسوب ہوا، یہ لوگ ملزم سے مجرم بنے، سزاوٓں اور جرمانوں کا سامنا کیا لیکن ٹیم میں کم بیک کیا
محمد عباس کی ٹیم میں شمولیت وقار اور مصباح کے کمزور اعصاب ہونے کی گواہی ہے،یہی کمزوریاں فتح کا راستہ روکتی ہیں، نسیم شاہ کو ریسٹ دینے کا مطلب سمجھ سے باہر ہے
اگر ہارنا ہی تھا لیکن عابد علی کو آزمانے میں کیا ہرج تھا، گابا سے ایڈیلیڈ ٹیسٹ تک اظہر علی کی کارکردگی ان کی کمزوریوں کا پول کھول رہی ہے ، ٹیم میں جگہ نہیں بنتی لیکن کپتان بنا دیا گیا
مورے واکر معروف برطانوی سپورٹس صحافی ہیں جنہوں نے برطانیہ میں ہونے والی کار ریس میں بطور کمینٹیٹر عرصہ دراز تک خدمات انجام دیں ، وہ کرکٹ کے بھی رسیا رہے ہیں اور اپنی جوانی میں انہوں نے کلاسک کرکٹ کے وہ شاہکار دیکھے ہیں جن کی نئی نسل کو حسرت ہی ہے کہ وہ بھی ایسی کرکٹ دیکھ پائے۔ مورے واکر کا کہنا ہے کہ ’’آج کی کرکٹ کوئی کرکٹ ہے؟ نہیں یہ کرکٹ نہیں بلکہ موٹر ریس ہے جس میں سب کو جلدی ہوتی ہے۔‘‘ واکر کی اس بات کا اطلاق کہیں ہوتا ہے تو کہیں نہیں بھی ہوتا۔ آپ ایڈیلیڈ ٹیسٹ کی بات کرلیں۔ آسٹریلوی ٹیم کے لیے یہ ٹیسٹ میچ کرکٹ یادگار کرکٹ میچ رہا اس لیے کہ اس میں لابوشین اور وارنر نے وہ کارہائے انجام دئیے جو تاریخ ساز ہیں جبکہ اسی میچ میں پاکستانی ٹیم کے لیے یہ کرکٹ سے زیادہ ایک ریس تھی، جس تیزی سے قومی کھلاڑی کھیلنے آتے رہے، اسی تیزی سے ان کی واپسی یقینی ہوتی رہی۔ آجا کے بابراعظم ہی بچے جنہوں نے ان تھک محنت سے رنز بنانے کا ٹھیکہ لیا اور اپنا ہدف پورا کیا لیکن دوسری اننگز میں وہ بھی محض 8 رنز بنانے کے بعد چلتے بنے۔ ان کے بعد یاسر شاہ نے مزاحمت کی اور سنچری بنانے میں کامیاب رہے۔ ان دونوں کے علاوہ باقی تمام کھلاڑیوں نے تو موٹر ریس میں ہی حصہ لیا۔ یوں گئے اور یوں ہی واپس چلے آئے۔ اس طرح ایڈیلیڈ ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں فالو آن کا شکار ہونے والی قومی ٹیم کووائٹ واش کا سامنا کرنا پڑا۔ پنک بال میچ میں قومی ٹیم آسٹریلیا کے 589 رنز کے جواب میں 302 رنز پر ڈھیر ہو کر فالو آن کا شکار ہوئی۔ کرکٹ میں سب سے زیادہ ہزیمت فالو آن کا ہونا ہوتی ہے اور اظہر علی الیون نے خوش دلی سے اس شرمندگی کو اپنانے میں دیر نہ کی۔ایڈیلیڈ میں نہ باوٓلنگ چلی اور نہ ہی بیٹنگ جب کہ کینگروز کی پانچوں انگلیاں گھی میں تھیں۔ انہوں نے باوٓلنگ میں بھی تباہ کاریاں مچائیں اور بیٹنگ میں بھی پاکستانی باوٓلرز کی خوب دھلائی کی۔ دل تو یہی چاہتا ہے کہ عالمی چیمپئن یوسین بولٹ کا وہ قول اظہر علی کے گوش گزار کروں جس میں انہوں نے فرمایا، ’’میں پہلے کرکٹ کھیلتا ہوں کیوں کہ کرکٹ ہی میرا کوچ ہے جو مجھے سکھاتا ہے کہ ٹریک اور فیلڈ کے سفر کو منزل تک کیسے پہنچایا جاتا ہے، لیکن یوسین بولٹ کے اس قول پر سوال اٹھتا ہے کہ کیا پاکستانی ٹیم جو کرکٹ کھیل رہی ہے،وہ کر کٹ ہے؟ ایان چیپل نے پاکستان کی اس کرکٹ پر یہ تبصرہ کیا ہے کہ’’ پاکستانی ٹیم بغیر تیاری کے آسٹریلیا آئی اوریہاں کے لوگوں کو یکطرفہ کرکٹ نے بور کیا، یہی وجہ ہے کہ ڈیوڈ وارنر کی ٹرپل سنچری پر خوشی کے وہ جذبات نہیں دیکھے گئے جن کی توقع تھی۔ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ یکطرفہ مقابلے کی ٹرپل سنچری ہے اس میں دیکھنے لائق کیا ہے، دوسری طرف پاکستانی ٹیم کے اراکین یوں لاتعلق نظر آ رہے ہیں جیسے انہیں شکست کا غم اور جیت سے غرض نہیں‘‘۔ ایان چیپل کے علاوہ رمیز راجہ نے اپنا غصہ کچھ اس طرح نکالا کہ پاکستانی الیون آئندہ کبھی آسٹریلیا آنے کی جرآت نہ کرے۔ محمد حفیظ بھی مصباح الحق پر خوب برسے، ان کی باتیں سچ ہیں۔ بھلے کرکٹ بورڈ انہیں شوکاز نوٹس جاری کرکیانضباطی کارروائی کرے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اپنی اصلاح کے لیے بھی کچھ کرے۔ قومی ٹیم کی تنزلی کی کئی وجوہات ہیں جن میں سے ایک وجہ کرکٹ بورڈ کا انٹی کرکٹ والا رویّہ ہے۔ وہاں سب کچھ ہوتا ہے لیکن اگر کچھ نہیں ہوتا تو وہ کرکٹ کا نہیں ہوتا۔ کارپوریٹ سیکٹر کی تلاش سے لیکر آمدنی بڑھانے کے ذرائع کے کھوج کے لیے سب کچھ کرتے ہیں۔ مہنگے مہنگے ایم ڈی، ڈائریکٹر اور دیگر عہدیداروں کی خدمات مستعار لی جاتی ہیں لیکن کرکٹ کی بحالی اور ترقی کے لیے کوئی بھی پلان دے دیں، اس پرغور نہیں ہو گا اور نہ ہی غور کرنے کے قابل سمجھا جائے گا۔ ڈومیسٹک کرکٹ کا خانہ خراب کرنے کا ٹھیکہ دیا گیا اور اس کی بربادی کا آغاز ہو چکا ہے۔ اس مرتبہ ریجنز ختم کرنے کی بجائے ادارہ جاتی کرکٹ ختم کر دی گئی، کوئی اور آئے گا وہ ادارہ جاتی کرکٹ کی جگہ پھر سے علاقائی کرکٹ کا خاکہ لے کر اپنا کام شروع کرے گا، ہر کوئی اپنی طرز کے نظام کو لاگو کرنے میں جتا نظر آتا ہے لیکن کسی کو یہ خیال نہیں آتا کہ ڈومیسٹک کرکٹ میں 33 سنچریاں بنانے والا فواد عالم یہ حسرت لیے بوڑھا ہو رہا ہے کہ کاش میں بھی پاکستان کے لیے کوئی خدمت انجام دے پاوٓں۔ یہاں اتنی جرات نہیں ہے کہ کوئی بولڈ قدم اٹھا سکے۔ ذرا سوچیں ایک ڈیرہ سال قبل ڈیوڈ وارنر اور سمتھ نے کیا حرکت کی تھی۔ بال ٹمپرنگ کا اتنا بڑا سکینڈل ان کے ناموں کے ساتھ منسوب ہو کر الزام ثابت ہوا اور یہ لوگ ملزم سے مجرم بنے، سزاوٓں اور جرمانوں کا سامنا کیا لیکن ٹیم میں کم بیک کیا۔ ان لوگوں نے اپنی کمزوری کو اپنی طاقت بنایا اور ماتھے پر لگے کلنک کو کارکردگی سے دھو ڈالا۔ نیولینڈز کا بدنام زمانہ مجرم ایڈیلیڈ کا ہیرو قرار پایا۔ سمتھ سات ہزار رنز بنانے والا تیز ترین بلے باز کے اعزاز کا حق دار ٹھہرا۔ پابندی اٹھنے کے بعد مجال ہے کہ کسی نے ان پر کوئی آواز کسی ہو، کوئی طعنہ دیا ہو، اس لیے کہ یہ لوگ سزائیں بھگت کر واپس آئے ہیں اور ہم نے ’’لوگ کیا کہیں گے‘‘ کے چکر میں سلمان بٹ جیسے مستند بلے باز کو ’’ٹکے ٹوکری‘‘ کر کے رکھ دیا۔ پابندی اٹھنے کے بعد کوئی سی ذلالت ہے جو سلمان بٹ نے نہ جھیلی ہو۔ جونیئر کھلاڑیوں کے جھرمٹ میں اپنے گناہ کا اعتراف کر کے انہیں آئندہ ایسا نہ کرنے کی ترغیب دینے سے لے کر انضمام الحق کی اس شرط کو پورا کرتے ہوئے اسے چار برس ہو گئے کہ چار روزہ کرکٹ میں کارکردگی دکھاوٓ، ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیں ، ڈومیسٹک کرکٹ کے کس باب میں سلمان بٹ کا نام نہیں ہے۔ گڈ لینتھ کے شاندار باوٓلر محمد آصف کو بھی نفرت کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ ان لوگوں کا جرم بھی وارنر اور سمتھ کے جرم جیسا تھا لیکن ان کی سزائیں تو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہیں۔ چلیں آپ سلمان بٹ اور محمد آصف کو رہنے دیں۔ جو ٹیم دورے پر ہے اس میں عابد علی کو کس کپیسٹی میں لے جایا گیا۔ کیا امام الحق عابد علی سے بہتر پرفارمر ہے یا اس کی تکنیک بہتر ہے۔ امام الحق کے بارے میں یہ بتایا جائے کہ وہ کس طرز کی کرکٹ کا کھلاڑی ہے۔ اگر ہارنا ہی مقصود تھا تو عابد علی کو آزمانے میں کیا ہرج تھا، پھر اظہر علی کے نام کے ساتھ جڑے ریکارڈز نے تو نہیں کھیلنا ہوتا ، کھیلنا تو اظہر علی نے ہوتا ہے اور گابا ٹیسٹ سیایڈیلیڈ تک اس کی کارکردگی اس کی کمزوریوں کا پول کھول رہی ہیں۔ جس کھلاڑی کی ٹیم میں جگہ نہیں بنتی، اسے کپتان بنا دیا گیا۔ حارث سہیل کو کیا ہو گیا؟ وہ تیزی سے اپنا وزن بڑھاتا جا رہا ہے، نہ کوئی اس کی کارکردگی درست کرواتا ہے اور نہ ہی کوئی بیٹنگ تکنیک، نئے لڑکوں میں افتخار اور رضوان پر بات نہیں کر سکتے اس لیے کہ تجربے کی کمی کی وجہ سے وہ ٹیسٹ کرکٹ کے مروجہ اطوار کو اپنانے میںناکام رہے ہیں، لیکن ہو سکتا ہے وقت کے ساتھ ساتھ سیکھ لیں اور بہتر پرفارم کر سکیں۔
باوٓلنگ کا تجزیہ کرنے سے قبل وقار یونس اور مصباح الحق سے دو دو ہاتھ ہو جائیں۔ گابا ٹیسٹ میں محمد عباس کو ڈراپ کیا گیا تھا، جس پر میڈیا پرسنز نے خوب شور مچایا اور وقار یونس کو آڑے ہاتھوں لیا۔ وقار یونس اس ضمن میں وضاحت کر چکے تھے کہ محمدعباس اپنی فارم اور ردھم میں نہیں تھے اس لیے ٹیم سے باہر ہیں لیکن یوں لگتا ہے جیسے بڑی تنقید سے گھبرا کر وقار یونس اور مصباح الحق نے محمد عباس کو ٹیم میں واپس لینے کا فیصلہ لیا، لیکن یہاں ایک بڑا سوال اٹھتا ہے کہ بے شک تنقید ہوئی لیکن عباس ٹیم کے لیے منتخب ہونے کے اہل نہیںتھے تو انہیں کیوں شامل کیا گیا؟وقار اور مصباح کا ہدف مضبوط ٹیم بنانا تھا یا تنقید سے گھبرا کر اسے ٹیم میں شامل کرکے ٹیم کو کمزور کرنا تھا۔ اللہ کے بندو سوشل میڈیا کا کام ہی منفی حربے استعمال کر کے بھڑاس نکالنا ہے اور آپ تو اپنے حواس بحال رکھ کر کام کریں۔ میرٹ تو یہ کہتا ہے کہ عباس فٹ نہیں ہیں تو انہیںٹیم میں شامل نہ کیا جائے، چاہے کوئی اس پر کتنے ہی طنز کے نشتر کیوں نہ چلائے، آپ کو تو پاکستان کی عزت کو دیکھنا تھا۔ محمد عباس کی ٹیم میں شمولیت وقار اور مصباح کے اعصاب کمزور ہونے کی گواہی ہے اور یہی کمزوری ہماری فتح کا راستہ روکے ہوئے ہے۔ نسیم شاہ کو ریسٹ دینے کا مطلب بھی سمجھ سے بالا تر ہے۔ ایک میچ کھیلا کر آرام دینا کیا معانی رکھتا ہے۔ کیا ہم یہاں پانچ ٹیسٹ میچز کی سیریز کھیلنے آئے ہیں جو انہیں ریسٹ دینا ضروری تھا اور پھر ڈومیسٹک کرکٹ کے ایک سیزن میں 17 وکٹیں لینے والے موسیٰ خان کو بھوکے کینگروز کے آگے ڈال دینا اس کے کیرئر سے کھلواڑ کرنا ہے۔ کچی عمر کے کچے باوٓلر کو آسٹریلوی کرکٹرز کے سامنے قربانی کا بکرا بنا دینا کسی طور درست نہیں۔ افسوس کہ انہی صفحات پر مصباح الحق کے حق میں کتنے ہی دلائل دیئے جاتے رہے ہیں اور آج افسوس سے تحریر کیا جا رہا ہے کہ دوہرے کردار میں مصباح الحق کی شخصیت مسنح ہوئی ہے وہ نہ ٹیم کا درست چناوٓ کر پائے اور نہ ہی کسی کی بیٹنگ تکنیک کو بہتر کرنے میں کامیاب رہے۔ گھبرائے ہوئے مصباح نے اپنے چناوٓ پر سوال کھڑے کر دئیے ہیں۔
جہاں تک فالو آن ہونے کی بات ہے تو اس ضمن میں عرض ہے کہ یہ بات تو رسوائی کی ہے لیکن اگر دم ہو تو پلٹ کر چھپٹنے کا امکان بھی ہوتا ہے، لیکن اس کے لیے دم خم کا ہونا ضروری ہے۔ آئیے اس ضمن میں آپ کو کیا کہانی سناتے ہیں۔
1981 میں لیڈز، لندن کے میدان میں برطانوی اور آسٹریلوی ٹیمیں آپس میں ٹکرائیں۔دونوں کے درمیان زور دار مقابلہ ہوا۔ آسٹریلویوں نے برطانویوں کو جلدآوٓٹ کرکے فالوآن پر مجبور کردیا۔ تاہم برطانویوں نے بڑی جی داری دکھائی، دوسری اننگ میں رنز کا پہاڑ لگایا اور پھر میچ جیتنے میں کامیاب رہے۔ ٹیسٹ کرکٹ میں یہ پہلا موقع تھا کہ کوئی ٹیم فالو آن کے بعد بھی میچ جیتنے میں کامیاب رہی۔فاتح انگلش ٹیم میں پیٹرولی بھی شامل تھا۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ 2001 میں کلکتہ، بھارت میں آسٹریلوی اور بھارتی ٹیموں کے مابین ٹیسٹ میچ ہوا۔ اس میں پہلے بلے بازی کرتے ہوئے آسٹریلویوں نے445رن بنائے۔ جواباً بھارتی ٹیم 171رن پر آوٓٹ ہوگئی۔یوں بھارتی ٹیم کو فالو آن پر مجبور ہونا پڑا۔ مگر دوسری اننگ میں بھارتیوں نے عمدہ کارکردگی دکھائی اور رنز کا پہاڑ کھڑا کردیا۔ بھارتی ٹیم نے 657 رنزبنائے۔جب آسٹریلوی کھیلنے آئے، تو اسپنر ہربھجن سنگھ اور ٹنڈولکر نے ان کی بلے بازی تہس نہس کردی۔ آسٹریلوی صرف 212رن بناسکے اور میچ کھوبیٹھے۔ یوں کرکٹ کی تاریخ میں دوسری بار ایسا ہوا کہ فالو آن پر مجبور ہونے والی ٹیم میچ جیت گئی۔ دلچسپ بات یہ کہ اسی میچ میں پیٹرولی بطور امپائر شریک تھا۔ یوں وہ دنیائے کرکٹ کی واحد شخصیت بن گیا جو دونوں تاریخی میچوں کا حصہ رہا۔
لیکن سوال یہ ہے کہ ہم کم بیک کادم کہاں سے لائیں۔ بس یہی کہا جا سکتا ہے کہ پاکستانی کرکٹ کا خدا ہی حافظ