چینی وزارت خا رجہ

امریکی قومی سلامتی کے مشیر کے دورہ چین کے دوران چین سنجیدہ معاملات پر گفتگو کر ے گا، چینی وزارت خا رجہ

بیجنگ (عکس آن لائن) چینی وزارت خارجہ کے شعبہ امریکہ اور اوقیانوسیہ کے ڈائریکٹرجنرل نے امریکی صدر کے معاون برائے قومی سلامتی جیک سلیوان کے آمدہ دورہ چین کے حوالے سے کہا کہ چین کے مرکزی کمیشن برائے امور خارجہ کے دفترکے ڈائریکٹر اور امریکی صدر کے قومی سلامتی کے معاون کے درمیان اسٹریٹجک بات چیت نومبر 2022 میں بالی میں ہونے والے چین امریکہ سربراہ اجلاس میں طے پانے والا اہم اتفاق رائے کے مطابق ہے۔

یہ آٹھ سالوں میں کسی امریکی صدر کے معاون برائے قومی سلامتی کا چین کا پہلا دورہ ہے اور یہ سلیوان کا بھی چین کا پہلا دورہ ہے جو دونوں سربراہان مملکت کے درمیان سان فرانسسکو سربراہ اجلاس میں طے پانے والے اتفاق رائے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے فریقین کا اہم اقدام ہے۔سان فرانسسکو اجلاس کے بعد، فریقین کی سفارتی، مالی، قانون نافذ کرنے والی اور موسمیاتی تبدیلی کی ٹیموں اور دونوں افواج کےدرمیان رابطے برقرار ہیں، لیکن اس کے ساتھ ہی امریکہ نے چین کو دبانے کا سلسلہ جاری رکھا جبکہ چین نے اس کا سختی سے مقابلہ کیا اوراب چین-امریکہ تعلقات ایک اہم موڑ پر ہیں. اس پس منظر میں وانگ ای اور جیک سلیوان چین امریکہ تعلقات، حساس معاملات اور اہم بین الاقوامی اور علاقائی ہاٹ ایشوز پر تفصیلی تبادلہ خیال کریں گے۔

چین تائیوان کے مسئلے، ترقی کے حق اور چین کی تزویراتی سلامتی سمیت اہم معاملات پر اپنے سنجیدہ موقف کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ امریکہ سے مطالبات بھی کرے گا۔ تائیوان کا مسئلہ چین امریکہ تعلقات میں پہلی سرخ لکیر ہے جسے عبور نہیں کیا جا سکتا اور “تائیوان کی علیحدگی” آبنائے تائیوان میں امن و استحکام کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ امریکہ کو ایک چین کے اصول اور تین چین امریکہ مشترکہ اعلامیوں کی شقوں کی پاسداری کرنی چاہیے اور ‘تائیوان کی علیحدگی’ کی حمایت نہ کرنے کے اپنے وعدے کو پورا کرنا چاہیے۔ امریکہ نے چین کے خلاف محصولات، برآمدی کنٹرول، سرمایہ کاری کے جائزے اور یکطرفہ پابندیوں کے حوالے سے مسلسل غیر معقول اقدامات کیے ہیں جن سے چین کے قانونی حقوق اور مفادات کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ چین امریکہ سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ معاشی اور تجارتی معاملات کو سیاسی رنگ دینا بند کرے اور ان میں سلامتی کے تصور کا غلط استعمال نہ کرے۔ چین امریکہ تعلقات کی بنیاد عوام میں ہے اور امریکہ کو چین کے ساتھ ملکر دونوں ممالک کے عوام کے مابین تبادلوں کو آسان بنانے کے لئے مزید اقدامات کرنے چاہئیں۔ چین امریکہ پر یہ بھی زور دے گا کہ وہ سلامتی کونسل کے مستقل رکن کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرے اور موجودہ اہم اور نمایاں بین الاقوامی اور علاقائی مسائل کے سیاسی حل میں تعمیری کردار ادا کرے۔ چینی وزارت خارجہ کے شعبہ امریکہ اور اوقیانوسیہ کے ڈائریکٹرجنرل نے اس بات پر زور دیا کہ امریکہ کے بارے میں چین کی مستقل پالیسی صدر شی جن پھنگ کی طرف سے پیش کردہ باہمی احترام، پرامن بقائے باہمی اور مشترکہ تعاون کے تین اصولوں پر مبنی ہے۔ چین کا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ بڑی طاقتوں کا مقابلہ امریکہ اور دنیا کو درپیش مسائل کو حل نہیں کر سکتا۔
مشرق وسطیٰ کے مسئلے پر انہوں نے نشاندہی کی کہ اس وقت اولین ترجیح یہ ہے کہ تنازع کے تمام فریق سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں پر سنجیدگی سے عمل درآمد کریں اور بین الاقوامی برادری کو اس مقصد کے لیے مشترکہ کوششیں کرنی ہوں گی۔ امریکہ کو بین الاقوامی برادری کی اکثریت کی بات سن کر ذمہ دارانہ موقف اختیار کرنا ہوگا۔ یوکرین کے معاملے پرچینی وزارت خارجہ کے حکام نے کہا کہ چین امن مذاکرات اور سیاسی تصفیے کو مسلسل فروغ دے گا۔ امریکہ کو چاہیے کہ وہ چین کے خلاف جھوٹے الزامات لگانا بند کرے۔ بحیرہ جنوبی چین کے معاملے پر انہوں نے زور دے کر کہا کہ بحیرہ جنوبی چین میں چین کی علاقائی خودمختاری اور بحری حقوق اور مفادات کی مضبوط تاریخی اور قانونی بنیاد ہے اور خطے کے ممالک میں بحیرہ جنوبی چین کے مسئلے سے اچھی طرح نمٹنے کے لئے مکمل اعتماد، دانشمندی اور صلاحیت موجود ہے۔ خطے سے باہر کے ممالک کو ایسا کچھ نہیں کرنا چاہیے جس سے محاذ آرائی یا کشیدگی میں اضافہ ہو۔چینی وزارت خارجہ کے شعبہ برائے امریکہ اور اوقیانوسیہ کے ڈائریکٹر جنرل نے کہا کہ چین پرامن ترقی اور باہمی تعاون پر عمل کرتا ہے اور بین الاقوامی نظام اور نظم و نسق کی ثابت قدمی کے ساتھ حفاظت کرتا ہے،جس کا مرکز اقوام متحدہ ہے۔