واشنگٹن (نمائندہ عکس)امریکی صدر جو بائیڈن براستہ اسرائیل مشرق وسطیٰ کے اہم ترین دورے پر روانہ ہوگئے ۔یروشیلم میں دو روزہ قیام کے دوران صدر بائیڈن اسرائیلی رہنماؤں سے ملاقات کریں گے جبکہ جمعہ کے روز اپنے دورے کے آخری مرحلے پر وہ فلسطینی رہمنا محمود عباس سے غرب اردن میں ملاقات کریں گے۔امریکی صدر جو بائیڈن کا اگرچہ اسرائیل کا 10واں دورہ ہے، تاہم اس دوران وہ چند ایسی ملاقاتیں کرنے جا رہے ہیں جو اپنی نوعیت کی پہلی ملاقات ہوں گی۔بائیڈن اپنے دورے کے دوران صہیونی وزیر دفاع کی معیت میں اسرائیل کی متعدد سکیورٹی تنصیبات کا بھی دورہ کریں گے۔ غالب امکان ہے کہ وہ سنٹرل اسرائیل میں تل ابیب ہوائی اڈے کے نواح میں واقع البالماش ایر بیس کا دورہ کریں، جہاں وہ آئرن ڈوم نامی ایئر ڈیفنس بیڑیوں کی نمائش دیکھیں گے، جو اس امر کا اشارہ ہے کہ جو غزہ جنگ کے بعد سے امریکہ کی طرف اسرائیل کو ائر ڈیفنس خریداری کے لیے 500 ڈالر دینے کی رضا مندی ظاہر کرتا ہے۔
اس بات کا غالب امکان ہے کہ صدر بائیڈن اپنے ہم منصب اسرائیلی عہدیداروں سے مذاکرات کے دوران اس بات کی منظوری دے دیں کہ تل ابیب beam iron نامی ایئر ڈیفنس کی خریداری کے لیے امریکی فوجی انڈسٹریل کمپلیکس سے مذاکرات شروع کر سکتے ہیں۔دوسرے دن کے آغاز پر صدر بائیڈن اور ہائر لپیڈ سے ملاقات کریں گے جس کے بعد دونوں رہنما مشترکہ نیوز کانفرنس سے خطاب کریں گے۔ اس کے بعد دونوں رہنما ویڈیو لنک کے ذریعے I2U2 نامی کلب کی میٹنگ میں شرکت کریں گے۔ اس اجلاس میں بھارتی وزیر اعظم مودی اور امارات کے صدر محمد بن زاید آل نھیان بھی شرکت کریں گے۔جمعہ کے دن امریکی صدر مقبوضہ مشرق بیت المقدس میں ”اوغوستا وکٹوریا” ہسپتال کا دورہ کریں گے۔ کسی بھی امریکی صدر کا اولڈ بیت المقدس کی حدود سے باہر فلسطینی اکثریت والے علاقے کا پہلا دورہ ہو گا۔بعد ازاں جو بائیڈن فلسطینی انتظامیہ کے صدر محمود عباس سے ملنے بیت لحم جائیں گے، جہاں وہ واپسی پر وہ براہ راست سعودی عرب جائیں گے جہاں وہ سعودی حکام سے ملاقات کے علاوہ خلیج تعاون کونسل کے اس اجلاس میں شرکت کریں گے جس میں امریکہ، اردن، مصر عراق کو بھی شرکت کی دعوت ہے۔
امریکی حکام کے بقول بائیڈن کے پہلے دورہ مشرق وسطیٰ کے دوران سفارتی محاذ پر تاریخی نوعیت کی پیش رفت کا امکان ظاہر کر رہے ہیں۔مشرق وسطیٰ کی سیاست پر نظر رکھنے والے سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ اپنے دورے میں صدر بائیڈن امریکی اسلحے کی صنعت کے لیے خطے میں نئے امکانات کا جائزہ لینے اور ان امکانات کی روشنی میں آنے والے برسوں میں اہم فیصلے کرنا بھی شامل ہے۔نیز روس اور چین کی غیر معمولی قربت کے سیاسی، عسکری، جغرافیائی اور معاشی مضمرات کے رد کے لیے مشرق وسطٰی کے ممالک اور تیل کو متحرک کرنا اولیں مقاصد میں اہم ہیں۔ایران کے جوہری پروگرام کو روکنے کے لیے علاقے میں اجتماعی سوچ کی راہ میں ہر قسم کی رکاوٹوں کو ختم کرنا، ایرانی ڈرونز حملوں اور میزائل حملوں سے اسرائیل، سعودی عرب اور دیگر تمام ممالک کو محفوظ بنانا کے لیے اجتماعی دفاعی نظام وضع کرتے ہوئے تمام ملکوں کو مشترکہ دشمن اور مشترکہ دفاع کی سوچ پر مجتمع کرنا، نیز اس سوچ کو ہی اصلاً معاہدہ ابراہم کی روح کے طور پر پیش کرنا اہم ضرورت ہے۔