ایشیائی مخالف نسلی امتیاز

امریکی سیاست دانوں نے چین پر قابو پانے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے، چینی میڈ یا

واشنگٹن (عکس آن لائن) چائنا سوسائٹی فار ہیومن رائٹس کی جاری کی گئی تحقیقی رپورٹ “ایشیائی مخالف نسلی امتیاز اور امریکی نسل پرست سماج کی نسل پرستی” میں تفصیلی اعداد و شمار اور مثالوں کا استعمال کیا گیا ہے تاکہ یہ بتایا جا سکے کہ ایشیائی امریکی، دیگر نسلی اقلیتوں کے ہمراہ، تشدد کا نشانہ بن رہے ہیں۔امریکی سیاست دانوں نے چین کو سرد جنگ اور زیرو سم گیم کی ذہنیت سے دبانے اور اس پر قابو پانے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے،

ہفتہ کے روز چینی میڈیا کے مطا بق امریکہ میں انسانی حقوق کے مختلف مسائل اور خلاف ورزیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ ملک میں رنگ و نسل کا پیمانہ امریکی شہریوں کی قسمت کے فیصلہ میں اہم عنصر ہے۔ایشیائی امریکیوں کو ایک طویل عرصے سے ملک میں امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ خاص طور پر وبائی صورتحال کے بعد سے، ایشیائی باشندے نسل پرستانہ حملوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔ کیلیفورنیا اسٹیٹ یونیورسٹی کے سینٹر فار ہیٹ اینڈ ایکسٹریمزم اسٹڈیز کے اعدادوشمار کے مطابق، 2020 میں ایشیائی امریکیوں کے خلاف نفرت پر مبنی جرائم میں 149 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ 2021 کی پہلی سہ ماہی میں امریکہ کے 15 بڑے شہروں میں ایشیائی امریکیوں کے خلاف پرتشدد جرائم میں 2020 کی اسی مدت کے مقابلے میں 169 فیصد اضافہ ہوا۔

مزید برآں، حالیہ برسوں میں، امریکی سیاست دانوں نے چین کو سرد جنگ اور زیرو سم گیم کی ذہنیت سے دبانے اور اس پر قابو پانے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے، جس نے نہ صرف دونوں ممالک کے تعلقات کو مزید بگاڑ دیا ہے بلکہ چین سمیت پورے ایشیائی گروپ کو مزید سنگین نسلی امتیاز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

یونیورسٹی آف پنسلوانیا میں قانون کی پروفیسر ایمی ویکس نے فاکس نیوز کے ایک پروگرام میں ہندوستانی تارکین وطن پر حملہ کرتے ہوئے کہا کہ “ان کا اپنا ملک ایک ڈھونگ ہے۔” یہ چونکا دینے والا تبصرہ ایشیائی امریکیوں کے خلاف نسلی امتیاز کی ایک اور مثال ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں