چینی میڈ یا

امریکی حکومت کو سائنس کا احترام ہر گز پسند نہیں،چینی میڈ یا

بیجنگ (عکس آن لائن) تقریباً ایک ماہ سے امریکہ سمیت مٹھی بھر ممالک چین کی انسداد وبا پالیسی میں ترمیم کو ہدف تنقید بنائے ہوئے ہیں۔پیر کے روز رپورٹ کے مطا بق ایسے عناصر کا پہلے کہنا تھا کہ انسداد وبا کی پالیسی سخت ہے اور اب جبکہ پالیسی میں نرمی کی گئی ہے تو وہ چینی شہریوں پر پابندیاں عائد کر رہے ہیں۔ گزشتہ سال نومبر میں امریکی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ چین کی سخت پالیسی عالمی اقتصادی بحالی کے لئے ناسازگار ہے اور سائنسی نہیں ہے۔

پھر دسمبر کے وسط میں ہی امریکی حکام نے چین کی جانب سے پالیسی میں نرمی پر تشویش کا اظہار شروع کر دیا ۔ اب اُنہوں نے یہ موقف اپنایا ہے کہ وائرس میں تغیرات ہر وقت ممکن ہیں اور اس کا پھیلاؤ وسیع ہونے کے ساتھ ساتھ تغیرات بھی شدت اختیار کرجاتے ہیں۔ چین چونکہ بڑی آبادی کا حامل ملک ہے، ویرینٹ کا زیادہ امکان ہے، لہذا چینی شہریوں پر پابندی عائد کرنا ضروری ہے۔ یہ رائے شائد سننے میں تو درست لگتی ہو ، لیکن حقائق کے برعکس اور غلط ہے۔

اگرچہ امریکی حکومت کو سائنس کا احترام ہر گز پسند نہیں، لیکن انسداد وبا بنیادی طور پر سائنس کا ہی معاملہ ہے۔ لہذا ہم بھی اسے سائنسی طور پر ہی پرکھتے ہیں ۔معروف برطانوی وائرولوجسٹ وینڈی بارکلے نے حالیہ دنوں امریکی پریس کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ چین میں اس وقت موجود وائرس دنیا کے دیگر علاقوں سے منتقل ہوا ہے اور اس کا امریکہ اور یورپ میں پہلے ہی پھیلاؤ ہو چکا تھا۔ ایسا سمجھنا کہ چین میں پایا جانے والا وائرس زیادہ خطرناک ہے ، غلط ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وائرس تغیرات کے لحاظ سے دیکھا جائے تو فی الحال بعض ممالک خاص کر امریکہ اور یورپی ممالک میں تیزی سے پھیلنے والا وائرس ایکس بی بی ڈاٹ ون ڈاٹ فائیو زیادہ تشویش ناک ہے اور یہ امریکہ میں نمبر ون وائرس بن چکا ہے۔ مطلب یہ کہ اس وقت چین میں موجود کووڈ وائرس باہر سے آیا ہے جو دنیا کے دوسرے علاقوں کو متاثر کرتے ہوئے چین پہنچا ہے اور اس وقت چین اس کا شکار ہے۔ اگر وبا کی روک تھام کرنا ہے تو چین کو امریکہ کی جانب سے درپیش وبائی خطرات کو کنٹرول کرنا ہوگا۔
دوسرا ، یہ بھی اہم ہے کہ آبادی کے پیمانے کے لحاظ سے وائرس کا اندازہ لگانے کی بھی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ چین کی آبادی زیادہ ہے، لیکن امریکہ، یورپ اور بھارت کی کل آبادی چین کی آبادی کے دو گنا سے بھی زیادہ ہے۔اہم بات یہ ہے کہ وائرس میں تغیرات کی بھی حد ہوتی ہے۔ شروعات میں تغیرات کے زیادہ امکانات تھے، مگر آج تین سال بعد مختلف تبدیلیوں کی روشنی میں وائرس تغیرات کی صلاحیت بھی بتدریج کمزور پڑ چکی ہے۔

اور اگروائرس تغیر کے احتمال کی بات ہو، تو جرمن ماہر وبائی امراض کلاؤس اسٹیل کا حالیہ دنوں کہنا ہے کہ کووڈ وائرس کا نیا ویرینٹ ایسے علاقوں میں سامنے آنے کا امکان زیادہ ہےجہاں قوت مدافعت زیادہ موجود ہے۔امریکہ اور یورپ میں نئے ویرینٹ کا امکان نسبتاً زیادہ ہے۔ساتھ ہی ساتھ امریکی ایسو سی ایشن برائے وبائی امراض نے چھ تاریخ کو اپنے ایک بیان میں چینی مسافروں کے داخلے پر پابندی کی پالیسی پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔امریکی ماہر وبائی امراض ایان لپکن اور ان کے ساتھیوں کا واضح کہنا ہے کہ چینی مسافروں پر عائد پابندی غیرضروری، نامعقول اور بلا جواز ہے۔اگر امریکہ اور مغرب کا خدشہ محض احتمال پر مبنی ہے تو عام منطق یہی ہونی چاہئے کہ وہ اپنے اپنے شہریوں پر کنٹرول کریں۔

چلیے امریکی رویوں پر ایک مرتبہ پھر نگاہ دوڑائیں۔ نومبر میں چین کی سخت پالیسی کو غیرسائنسی قرار دینے والا ملک امریکہ تھا اور دسمبر میں چین کی نرم پالیسی کو دوبارہ غیرسائنسی قرار دینے والا ملک بھی امریکہ ہی تھا۔ یعنی امریکہ ایک ہی معاملے کے دو پہلوؤں کو بیک وقت غیرسائنسی سمجھتا ہے اور پھر یہ دعویٰ بھی کرتا ہے کہ وہ سائنس کی بات کر رہا ہے۔ ایک ماہ کی قلیل مدت میں بیانیے میں اس قدر تیزی سے تبدیلی، کیا امریکہ میں سائنس کی تعلیم اسپورٹس کے ٹیچر دیتے ہیں؟ چلو باتیں کرنے پر کوئی ٹیکس تو لگتا نہیں ، سو خوش ہوتے رہیں۔
سائنس کی بات کی جائے تو حقائق کا احترام لازم ہے۔یہ حقائق ہی ہیں جو بتاتے ہیں کہ کووڈ کے پھیلاؤ کے گزشتہ تین سالوں میں چین نے سائنس کی بنیاد پر انسداد وبا کی درست پالیسی برقرار رکھی اور دنیا بھر میں متاثرہ کیسز اور شرح اموات کے کم ترین پیمانے کو یقینی بنایا۔چین نے نہ صرف اپنی مثبت معاشی ترقی حاصل کی بلکہ عالمی اقتصادی بحالی کو بھی زبردست سہارا دیا ہے۔

اُدھر امریکہ جو جدید ترین سائنسی ٹیکنالوجی اور وافر طبی وسائل کا حامل ملک ہے ،میں کروڑوں افراد کووڈ کا شکار ہوئے جن میں دس لاکھ سے زائد جاں بحق بھی ہوئے ہیں۔ اس وقت امریکیوں کی اوسطا عمر کم ہو کر چھہتر اعشاریہ چار سال ہو چکی ہے جو تقریباً بیس سال پہلے کا معیار تھا۔مزید یہ کہ امریکہ ہی میں کووڈ انفیکشن کا ایک اور عروج دیکھنے میں آیا ہے۔ ایک جانب اپنے ہاں وبا کی مختلف لہروں کا مسلسل سامنا ، مگر دوسری جانب دوسروں پر بلا جواز تنقید کرنے پر بضد۔گویا یہ وائرس کی روک تھام یا وائرس کا پھیلاؤ بھی کسی سیاسی کھیل کی مانند ہے؟ یقین ہے کہ دنیا کے عوام کےپاس اس کا درست جواب موجود ہے۔

جہاں بالادستی ہے، وہاں لطیفوں کی بھی کوئی کمی نہیں ہوتی ہے۔2023 کے پہلے لطیفےکے تناظر میں ، نصف صدی قبل چین کےعظیم لیڈر چیئرمین ماؤ کی کہی گئی بات ذہن میں تازہ ہو گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکی سامراجی قوتیں بہت مغرور ہیں اور جہاں کہیں بھی وہ غیر معقول ہو سکتی ہیں، یقیناً وہ غیر معقول ہوں گی۔ اور اگر وہ معقول بننا چاہتی ہیں تو انہیں ایسا کرنے پر مجبور کیا جائے گا۔ یہ بات آج کی صورتحال میں بالکل موزوں لگ رہی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں