بیجنگ (عکس آن لائن) امریکی وزیر تجارت جینا ریمنڈو نے چین کا چار روزہ دورہ مکمل کیا۔
جمعرات کے روز چینی میڈ یا کے مطا بق اس سال جون کے بعد سے اب تک چین کا دورہ کرنے والے سینئر امریکی سیاستدانوں میں یہ چوتھی سیاستدان تھیں ۔ جینا ریمنڈو کے دورے پر تبصرہ کرتے ہوئے ، بین الاقوامی رائے عامہ نے چین اور امریکہ کے “نئے مواصلاتی چینلز قائم کرنے” کے اعلان پر توجہ دی ہے۔ ان کے خیال میں کہ اس سے غلط فہمیوں کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔
ریمنڈو نے یہ بھی واضح کیا کہ امریکہ چین سے ” ڈی کپلنگ ” نہیں چاہتا ۔انہوں نے امید ظاہر کی کہ امریکی کمپنیاں چین میں سرمایہ کاری کریں گی۔ اس حوالے سے ماہرین نے سی ایم جی کے ساتھ انٹرویو میں نشاندہی کی کہ “نیا مواصلاتی چینل” چین اور امریکہ کو مزید بات چیت اور تبادلے میں مدد دے گا، لیکن اس کا حقیقی کردار امریکی فریق کے حقیقی اقدامات پر منحصر ہے.
تین امریکی سیاستدانوں کے دورہ چین کے بعد امریکہ کے رویے اور اقدامات پر نظر ڈالیں تو یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ رائے عامہ میں اس طرح کے شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے جون میں چین کے اپنے دورے کے دوران یہ واضح کیا تھا کہ امریکہ بالی میں دونوں سربراہان مملکت کی ملاقات کے طے کردہ ایجنڈے پر واپس آنے کے لیے پرعزم ہے۔
تاہم گزشتہ دو ماہ کے دوران امریکہ نے چین کے تائیوان نائب رہنما لائی چھنگ ڈے کو امریکہ میں ‘ٹرانزٹ’ کرنے کی اجادت دی ، تائیوان کو اسلحے کی فروخت جاری رکھی اور چین کے خلاف سرمایہ کاری پر پابندی کا حکم نامہ بھی جاری کیا۔ ان اقدامات نے امریکی فریق کی ساکھ کے بارے میں بڑے شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے۔ لہٰذا ریمونڈو کے حالیہ بیان پر کتنا عمل کیا جائے گا ،اس کا مزید مشاہدہ کرنے کی ضرورت ہے۔
لوگوں کو امید ہے کہ امریکہ “نان ڈی کپلنگ” کے بیان پر عمل درآمد کرے گا، جس کا تعین چین-امریکہ تجارتی تعلقات کی نوعیت اور چینی اور امریکی شعبہ صنعت و تجارت کی حقیقی ضروریات کی بنیاد پر کیا جاتا ہے اور جو چین-امریکہ معیشت اور عالمی معیشت کی ترقی کے لئے فائدہ مند ہے.
امریکہ کو اس بار قائم ہونے والے “نئے مواصلاتی چینل” کے کردار کو واقعی اہمیت دینی چاہئے، بجائے اس کے کہ اسے ایک سجاوٹ کے طور پر لیا جائے اور صرف علامتی اہمیت دی جائے۔ چین اور امریکہ کی جانب سے قائم کردہ ورکنگ گروپ اور ایکسپورٹ کنٹرول انفارمیشن ایکسچینج میکنزم دونوں کو حقیقی معنوں میں اختلافات کو حل کرنے اور بات چیت کے ذریعے پالیسی کوآرڈینیشن کو فروغ دینے میں کردار ادا کرنا چاہیے کیوں کہ بین الاقوامی برادری یہی دیکھنا چاہتی ہے۔