بیجنگ (عکس آن لائن) کچھ عرصے سے امریکہ نے ‘حد سے زیادہ پیداوار’ کے مسئلے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے۔ مصنوعات کی برآمدات کو “حد سے زیادہ پیداوار” کے ساتھ تشبیہ دینا عام معاشی فہم اور گلوبلائزیشن کے رجحان کے منافی ہے۔ مختلف ممالک کے طرز عمل کو دیکھتے ہوئے ، کسی خاص صنعت کی پیداواری صلاحیت کا ملکی طلب سے زیادہ ہونا عام بات ہے ۔ مثال کے طور پر امریکہ میں پیدا ہونے والی چپس اور جرمنی میں تیار ہونے والی گاڑیوں کا 80 فیصد برآمد کیا جاتا ہے اور بوئنگ اور ایئربس کے تیار کردہ مسافر طیارے بھی بڑی مقدار میں برآمد کیے جاتے ہیں۔ اگر کوئی ملک صرف اپنی ہی مارکیٹ کے لیے پیداوار کرتا ہے تو تجارت کہاں سے شروع ہوگی ؟
امریکہ میں کچھ لوگوں نے ایک اور دلیل دی ہے کہ چین کی نئی توانائی کی پیداوار بھی عالمی طلب سے زیادہ ہے۔ انٹرنیشنل انرجی ایجنسی کے مطابق کاربن نیوٹرلٹی کے ہدف کو پورا کرنے کے لیے 2030 تک نئی انرجی گاڑیوں کی عالمی طلب 45 ملین تک پہنچ جائے گی اور فوٹو وولٹک کی نئی نصب شدہ صلاحیت کی طلب 820 گیگاواٹ تک پہنچ جائے گی جو 2022 کے مقابلے میں بالترتیب 4.5 گنا اور 4 گنا زیادہ ہے۔ یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ دنیا میں قابل تجدید توانائی کی سب سے بڑی مارکیٹ اور سازوسامان تیار کرنے والے بڑےملک کے طور پر، چین کی اعلی معیار کی پیداواری صلاحیت زیادہ نہیں ہے، بلکہ دنیا کو اس کی فوری ضرورت ہے.
متعدد تجزیہ کاروں نے نشاندہی کی ہے کہ “حد سے زیادہ پیداوار” کے نام نہاد نظریے کے پیچھے تین کلیدی الفاظ ہیں: “مفادات، ووٹ اور بالادستی”۔ رواں سال امریکہ میں انتخابات کا سال ہے، اور اس وقت “حد سے زیادہ پیداوار” کے اس نام نہاد نظریے کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا صرف ووٹ حاصل کرنے کے لیے ایک حربہ ہے. امریکہ کی جانب سے بار بار “حد سے زیادہ پیداوار” کی تشہیر زیرو سم ذہنیت اور بالادستی کی منطق کی عکاسی کرتی ہے۔ امریکہ میں کچھ لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ امریکی مارکیٹ میں چین کی اعلی معیار اور کم قیمت والی نئی توانائی کی مصنوعات کو داخل ہونے سے روکنا نہ صرف صارفین کے مفادات کو نقصان پہنچائے گا ، بلکہ عالمی سبز تبدیلی اور ابھرتی ہوئی صنعتوں کی ترقی کو بھی پیچھے دھکیل دے گا۔