جو ہا نسبر گ(عکس آن لائن)امریکی ریاست فلوریڈا کے شہر جیکسن ویل میں نسلی منافرت پر مبنی فائرنگ کا ایک واقعہ پیش آیا اور ایک سفید فام شخص نے تین سیاہ فام افریقی نژاد امریکیوں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔
اسی دن، ہزاروں لوگوں نے واشنگٹن کے لنکن میموریل میں نسلی گروہوں کے درمیان مساوی حقوق کے لئے 60 سالہ جدوجہد کی یاد میں ایک تقریب کا انعقاد کیا۔جمعرات کے روز عالمی میڈ یا کی ایک رپورٹ کے مطا بق 28 اگست 1963 کو افریقی نژاد امریکی شہری اور مساوی حقوق کی تحریک کے رہنما مارٹن لوتھر کنگ جونیئر نے سیاہ فاموں کے مساوی شہری حقوق کے حصول کے لیے مظاہرے میں تقریبا ڈھائی لاکھ افراد کے سامنے مشہور تقریر “میرے پاس ایک خواب ہے” کی ،
جو امریکہ میں نسلی امتیاز کی مخالفت اور مساوی حقوق کی جدو جہد کا کلاسیکی نعرہ بن گئی ۔تاہم اس تقریر کے ساٹھ سال بعد بھی سفید فام کی فائرنگ سے سیاہ فام افراد کی ہلاکت کے واقعات نہ رکے اور ایک اور تازہ واقعے میں 3 سیاہ فام افراد ہلاک ہوئے۔ یعنی ایک بار پھر لوگوں کو یاد دلایا گیا کہ اس حوالے سے 60 سال پہلے جو “خواب” بتایا گیا اسے ابھی پورا ہونے میں کافی وقت ہے۔امریکہ میں نسلی مساوات کا خواب بدستور ایک خواب ہے اور اقلیتوں کے خلاف نسلی امتیاز اور گن وائلنس جیسے مسائل اب بھی امریکی معاشرے میں نہ صرف آئے روز پیش آتے ہیں بلکہ ان میں شدت بھی دیکھی جا رہی ہے ۔
شاید مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کو بھی یہ توقع نہیں تھی کہ نصف صدی سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے بعد امریکہ میں افریقی نژاد افراد اب بھی اپنے حقوق کی جدو جہد میں مر رہے ہوں گے ۔ 26 تاریخ کو منعقدہ تقریب میں مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کی پوتی یولینڈا رینی کنگ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ “اگر میں آج اپنے دادا سے کچھ کہہ سکتی تو یہ کہتی کہ مجھے افسوس ہے کہ ہمیں آج بھی آپ کے خواب کی تکمیل کے لیے بھر پور کوشش کر نی ہے ۔ آج بھی نسل پرستی موجود ہے اور غربت برقرار ہے۔
اس تحریک کے آغاز کے 60 سال بعد بھی ، آج امریکہ میں آمدنی، تعلیم، رہائش، صحت کی دیکھ بھال اور دیگر پہلوؤں کے لحاظ سے اقلیتوں اور سفید فاموں کے درمیان نسلی فرق بدستور بہت واضح ہے.
8اگست 2022 کو ہیومن رائٹس واچ اور امریکن سول لبرٹیز یونین نے ایک رپورٹ جاری کی جس میں بتایا گیا کہ امریکہ میں نسلی امتیاز عام ہے۔جائیداد کے حقوق کے معاملے میں، سیاہ فام امریکیوں کو اب بھی نقصان ہو رہا ہے . ایک اندازے کے مطابق سیاہ فام گھرانوں کی دولت میں اضافے کی موجودہ شرح کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ سفید فام گھرانوں جتنی دولت حاصل کرنے میں انہیں 230 سال لگیں گے۔ امریکہ میں غربت میں زندگی گزارنے والے افراد میں سیاہ فام افراد کا تناسب تقریبا 21 فیصد ہے جبکہ غریب سفید فام 8.8 فیصد ہیں ۔یعنی اس حوالے سے سیاہ فام افراد کی تعداد سفید فام افراد سے دوگنی ہے ۔
اچھی زندگی اور صحت کے نقطہ نظر سے ، امریکی سینٹرفار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن (سی ڈی سی) کی طرف سے دسمبر 2022 میں جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق 2021 میں افریقی نژاد امریکیوں اور مقامی امریکیوں کی اموات کی شرح سفید فام امریکیوں کے مقابلے میں نمایاں طور پر زیادہ تھی۔ سنہ 2021 میں سفید فام امریکیوں کی اوسط عمر 76.4 سال تھی جبکہ افریقی نژاد امریکیوں کی اوسط عمر 70.8 سال اور مقامی امریکیوں کی اوسط عمر 65.2 سال تھی۔ صرف نوول کورونا وائرس کی وبا کے دوران افریقی نژاد امریکیوں، لاطینی امریکیوں اور مقامی لوگوں کی اموات کی شرح سفید فاموں کے مقابلے میں تقریبا تین گنا زیادہ تھی۔
تعلیم کے حق کے نقطہ نظر سے ، اقلیتی اسکولوں کی مالی اعانت کم ہے اور ریاست اقلیتی طلباء کو مناسب تعلیمی مواقع فراہم کرنے میں ناکام ہے ۔ امریکی محکمہ تعلیم کے اعداد و شمار کے مطابق، امریکہ میں ہر سال ہائی اسکول گریجویٹس میں افریقی نژاد امریکیوں کی تعداد تقریبا 15 فیصد ہے جبکہ پرنسٹن یونیورسٹی اور کارنیل یونیورسٹی جیسی آئیوی لیگ یونیورسٹیوں میں نئے طلبا ء صرف 8 فیصد افریقی نژاد امریکی ہیں،اور صرف ایک تہائی افریقی نژاد طلباء کالج سے گریجویٹ ہوتے ہیں ۔ اس حوالے سے تعلیمی قرضے اور خراب مالی حالات ان کے اسکول چھوڑنے کی اہم وجوہات ہیں۔
اس وقت امریکہ میں افریقی نژاد امریکی اور دیگر اقلیتیں، معاشرے کی تمام سطحوں پر انتظامی اعتبار سے شدید امتیاز کا شکار ہیں۔ امریکہ کے غیر مساوی سیاسی، معاشی اور سماجی نظام نیز حکمرانی کے ماحول نے افریقی نژاد امریکیوں جیسی اقلیتوں کے ساتھ امریکہ میں مساوی سلوک ناممکن بنا دیا ہے۔ مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کا “تمام افراد کے برابر ہونے” کا خواب ، امریکی معاشرے میں نسلی امتیاز کے سامنے اب بھی ایک خواب دکھتا ہے جس کی تعبیر بہت دور ہے ۔