لاہور(عکس آن لائن) پرنسپل پوسٹ گریجویٹ میڈیکل انسٹی پروفیسر ڈاکٹر سردار محمد الفرید ظفر نے کہا کہ آنکھوں کے امراض سے محفوظ رہنے کے لئے شوگر،بلڈ پریشر و دیگر بیماریوں سے چھٹکارا پانا ہوگا،آج میڈیکل سائنس اتنی ترقی کر چکی ہے کہ کالا موتیا سمیت آنکھوں کے جدید آپریشن ہو رہے ہیں جبکہ جنرل ہسپتال ملک بھر میں واحد سرکاری علاج گاہ ہے جہاں کینسر میں مبتلا بچوں کی آنکھوں کے بھی کامیاب مفت آپریشن ہو رہے ہیں۔ان خیالات کا اظہار پروفیسر الفرید ظفر نے آنکھوں کی بیماری کالا موتیا کے لئے ہفتہ آگاہی کے موقع پر منعقدہ واک میں گفتگو کرتے ہوئے کیا۔انہوں نے بتایا کہ گلوکوما کی ایڈوانس سرجری سمیت آنکھوں کی دیگر بیماریوں کی بر وقت تشخیص و علاج کے لئے جنرل ہسپتال کے شعبہ امراض چشم میں انتہائی پیشہ وارانہ معالجین اور جدید سہولیات دستیاب ہیں۔پروفیسر الفرید ظفر نے پروفیسر محمد معین،پروفیسر حسین احمد خاقان اور پروفیسر ثمینہ جہانگیر کی بینائی سے محروم افراد کی بہتر نگہداشت و ماڈرن تکنیک متعارف کروانے پر ان کی خدمات کو سراہا۔ اس موقع پر پروفیسر محمد معین ایچ او ڈی،پروفیسر حسین احمد خاقان،پروفیسر ثمینہ جہانگیر ڈاکٹر عبدالرزاق،ڈاکٹر زبیر سلیم، ڈاکٹر لبنیٰ صدیق، ڈاکٹر عروج امجد، ڈاکٹرعلی حیدر، کنیز فاطمہ، نبیلہ نذیر، زھرہ امبرین، مصباح طارق، جویریہ خانم سمیت نرسنگ سٹاف، سٹوڈنٹس اور پیرا میڈکس بھی موجود تھے جنہوں نے آنکھ کے امراض سے بچاؤ،آگاہی و علاج سے متعلق آگاہی بینرز اٹھا رکھے تھے۔اس آگاہی واک میں “کالا موتیا زندگی میں اندھیرا”اور “کالا موتیا بینائی کا خاموش قاتل”سلوگن تھے۔
ماہرین امراض چشم پروفیسر محمد معین نے بتایا کہ دنیا بھر میں 75لاکھ افراد اندھے پن کا شکار ہیں جبکہ پاکستان میں ان کی تعداد15لاکھ کے لگ بھگ ہے اور اگر بر وقت علاج اور تشخیص کے لئے اقدامات نہ اٹھائے گئے تو2040تک یہ تعداد ایک کروڑ 10لاکھ سے تجاوز کر جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ کالا موتیا انسانی جان کا دشمن ہے اور ہر سال ہزاروں افراد اس بیماری کے باعث بصارت سے محروم ہو جاتتے ہیں۔کالے موتیے کا آسان ہدف ذیابیطس اور بلڈ پریشر کے مریض ہوتے ہیں۔بچوں کی آنکھ کا سائز بڑا ہو جائے تو وہ بھی با آسانی اس مرض میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔پروفیسر حسن احمد خاقان، پروفیسر ثمینہ جہانگیر کا کہنا تھا کہ شوگر اور بلڈ پریشر ہمارے ملک میں عام ہے لہذا امراض چشم سے بچنے اور بینائی کو محفوظ رکھنے کیلئے ان بیماریوں سے دور رہنا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ اگرچہ میڈیکل سائنس کی ترقی نے کالے موتیے کا علاج اور آپریشن ممکن بنا دیا ہے تاہم اگر ابتدائی سطح پر تشخیص نہ ہو اور یہ بیماری پرانی ہو جائے تو آپریشن بھی ممکن نہیں رہتا۔ ہیڈ آف دی ڈیپارٹمنٹ امراض چشم پروفیسر محمد معین نے کالا موتیا کو نظر کا دشمن قرار دیتے ہوئے کہا کہ پردہ بصارت سے دماغ کو معلومات منتقل کرنے والے اعصاب کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں،آنکھ کا دماغ سے رابطہ منقطع ہونے سے نظر کمزور اور بینائی سے محروم ہو جاتا ہے۔
پرنسپل پی جی ایم آئی پروفیسر الفرید ظفر نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ آنکھوں کے نور سے محروم شخص کائنات کی رعنائیوں اور حسن سے بے بہرہ ہونے کے ساتھ ساتھ معاشی طور پر بھی ناکارہ ہو جاتا ہے جو نہ صرف خود اپنے خاندان پر معاشی ذمہ داری بن جا تا ہے بلکہ ملک و قوم ترقی و تجارتی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے قابل نہیں رہتا لہذا ہم آنکھوں پر اتنی ہی توجہ دینی چاہیے جتنی ہماری امراض قلب اور ذیابیطس پر دیتے ہیں۔اس سلسلے میں ضروری ہے کہ معاشرہ اور افراد شعور اجاگر کرنے کی بھرپور مہم چلائیں تاکہ کسی شخص کو آنکھوں کی تکلیف شروع ہو تو اسے یکسر نظر انداز کرنے کی بجائے ابتدا ہی سے مستند معالج سے رجوع کیا جائے تاکہ اس مسئلے کا فوری تدارک کیا جائے تاکہ آنکھیں بڑی بیماری سے بچ سکیں۔