ہندوستانیوں کی واپسی

امارات سے ہندوستانیوں کی واپسی، معیشت پر دوہری ضرب

دبئی(عکس آن لائن)خلیج تعاون کونسل (جی سی سی) کے رکن ممالک میں کرونا وائرس کی وبا پھیلنے کے بعد سے مختلف کاروباروں اور ان ممالک میں مقیم بھارت کے تارکینِ وطن کی آمدنیوں پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں اور اب وہ اپنے آبائی ممالک کو بہت تھوڑی رقوم بھیج رہے ہیں۔یو اے ای کی ایک ایکسچینج کمپنی ڈیلما کے مطابق اپریل میں بیرونی افراد کی جانب سے انفرادی طور پر اپنے آبائی ممالک کو بھیجی جانے والی ترسیلاتِ زر میں 65 فی صد تک کمی واقع ہوئی ہے۔

کارپوریٹ ترسیلاتِ زر میں بھی تین سے چار فی صد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ڈیلما ایکسچینج کے مطابق 2020 میں ترسیلات زر میں 20 فی صد تک کمی متوقع ہے۔ عالمی مارکیٹ میں تیل کی کم ترین قیمتوں اور کرونا وائرس کے جی سی سی ممالک کی معیشتوں پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ کونسل کے رکن دولت مند ممالک سے ہندوستان ، پاکستان اور مصر ایسے ممالک میں کم رقوم کی ترسیل ہورہی ہے۔عالمی بنک کے اعداد وشمار کے مطابق امریکہ کے بعد متحدہ عرب امارات اورسعودی عرب دنیا کے دوسرے ملکوں بالخصوص کم یا متوسط آمدن والے ممالک میں ترسیلات زر کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔ڈیلما ایکسچینج میں کارپوریٹ سیلز کے سربراہ نضیش دیوادیجا نے کہا ہے کہ کاروباروں کے دروازے بند ہوچکے ہیں، فضائی کمپنیوں نے اپنے طیارے زمین پر کھڑا کردیے ہیں اور لوگ اپنے آبائی ممالک کو لوٹ رہے ہیں۔ کوئی معاشی سرگرمی نہ ہونے کی وجہ سے آجر بھی مجبور ہوگئے ہیں۔ جی سی سی کے تمام ممالک میں روزگارکے خطرات پیدا ہوگئے۔

ان سب عوامل کے ترسیلات زر بھی اثرات مرتب ہوں گے۔ کرونا وائرس سے نمٹنے کے لیے جی سی سی کی حکومتوں نے اپنے سرکاری اخراجات میں کمی کردی ہے بعض بڑے منصوبوں پر کام روک دیا گیا ہے۔ ان منصوبوں پر کام کرنے والے بہت سے تارکین وطن ملازمین اپنے آبائی ممالک کو رقوم بھیجنے کی سکت نہیں رہی ہے بلکہ اب تو ان میں سے بہت سے افراد نان جویں کے محتاج ہوکر رہ گئے ہیں۔عالمی اقتصادی فورم کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ایک ارب سے زیادہ آبادی کے گزربسر کا انحصار بیرون ملک سے ترسیلات زر پر ہے۔

بہت سے خاندانوں کی کفالت کا انحصار خلیجی عرب ممالک میں روزگار کے سلسلے میں مقیم افراد کی جانب سے بھیجی جانے والی رقوم پر ہوتا ہے۔ 2019 میں ایک تخمینے کے مطابق دنیا بھر میں روزگار کے سلسلے میں مقیم 20 کروڑ تارک وطن افرادی قوت نے کم یا درمیانی آمدن والے اپنے آبائی ممالک کو 715 ارب ڈالر کی رقوم بھیجی تھیں۔ان رقوم میں سے تخمینا 551 ارب ڈالر سے غریب یا کم آمدنی والے ممالک میں مقیم 80کروڑ افراد کی مالی معاونت ہوئی تھی۔واشنگٹن کے ایک سینیر ماہراقتصادیات دلیپ راٹھا نے بلومبرگ کو بتایا کہ اس سال فلپائن میں ترسیلات زر میں قریبا 13 فی صد کمی واقع ہوگی۔عالمی سطح پر فلپائن امریکی ڈالر میں دوسرے ممالک سے رقوم وصول کرنے والا چوتھا بڑا ملک ہے۔دنیا بھر سے سب سے زیادہ ترسیلات مشرقی ایشیا کے ممالک میں ہوتی ہیں۔

ان میں ہندوستان،چین اور فلپائن سرفہرست ہیں۔ان کے بعد پاکستان اور دوسرے ممالک آتے ہیں۔ کرونا وائرس کے نتیجے میں معاشی انحطاط سے اگر تارکین وطن خلیجی عرب ممالک میں اپنے روزگار سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں تو اس سے نہ صرف ان کے آبائی ممالک کی معیشتوں پر اثرات مرتب ہوں گے بلکہ وہ جن ممالک میں کام کرتے ہیں ، ان کی معیشتوں پر قلیل المدت کے علاوہ طویل المدت اثرات مرتب ہوں گے۔دبئی سے تعلق رکھنے والے انسانی وسائل کے ایک مشیر نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس کی یہ وضاحت کی ہے کہ جی سی سی کے ممالک میں کام کرنے والے ہندوستانیوں سے ہندوستان کی معیشت کو بھی قدرتی طور پر فائدہ پہنچتا ہے۔اس کا دوسرے ممالک سے ترسیلات زر پر بہت زیادہ انحصار ہے۔

اگر وہ ہندوستانی یہاں اپنی ملازمتیں کھوبیٹھتے ہیں اور اپنے آبائی ملک کو لوٹ جاتے ہیں تو اس کے ہندوستانی معیشت پر دہرے اثرات مرتب ہوں گے۔اول، یہ کہ ترسیلات زر میں نمایاں کمی واقع ہوگی۔زرمبادلہ کے ذخائر سکڑ کررہ جائیں گے۔دوم لوٹنے والے ملازمین کی وجہ سے ملک میں بے روزگاری کی شرح میں اضافہ ہوگا اور پہلے سے بے روزگار کثیر آبادی میں مزید لوگوں کا اضافہ ہوجائے گا۔ یو اے ای میں مقیم تقریبا دو لاکھ ہندوستانیوں نے حالیہ دنوں میں وطن واپسی کے لیے اپنے ناموں کا اندراج کروایا ہے۔ان کی واپسی کے لیے یو اے ای کے ایرپورٹس سے خصوصی پروازیں چلائی جارہی ہیں

اپنا تبصرہ بھیجیں