اسلام آباد (عکس آن لائن) نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ افغان عبوری حکومت آنے کے بعد پاکستان میں دہشتگردی بڑھی،پاکستان مخالف دہشت گردوں کیخلاف افغان حکومت نےکوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے، ملک میں بدامنی پھیلانے کا زیادہ ہاتھ غیر قانونی تارکین وطن کا ہے ، خودکش حملوں میں ملوث افراد میں 15 افغان شہری ملوث تھے،
پاکستان نے ہر طرح سے مشکل حالات میں افغانستان کا ساتھ دیا، دہشت گردوں کی فہرست افغان عبوری حکومت کو بھیجی گئی،کستان کسی پر دبا ودیتا ہے اور نہ پاکستان کسی کا دباو لے گا، غزہ کے لئے جتنا کیا جائے اتنا کم ہے، ڈیڑھ ارب مسلمان ان کی امداد سے مطمئن نہیں، وہاں خواتین اور بچوں پر حملے ہو رہے ہیں۔اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ پاک افغان تعلقات مشترکہ مذہب، بھائی چارے پر مبنی ہیں، پاکستان نے لاکھوں افغان مہاجرین کی 4 دہائیوں تک میزبانی کی تاہم گزشتہ 2 سال میں افغان سرزمین سے دہشت گردانہ کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ عبوری افغان حکومت کے آنے کے بعد سے پاکستان میں دہشت گردی میں 60 فیصد اضافہ ہوا ہے، خودکش حملوں میں ملوث افراد میں 15 افغان شہری ملوث تھے جب کہ اقوام متحدہ رپورٹ میں پاکستان مخالف سرگرمیوں کا ذکر کیا گیا۔ انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ 20 لاکھ افراد بشمول افغان رجسٹرڈ کارڈز کے حامل افراد اور پناہ گزینوں کو پاکستان سے واپس نہیں بھیج رہے جبکہ آپریشن کے بعد سے اب تک 2 لاکھ 52 ہزار غیر قانونی افغان شہری واپس جا چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے ہر طرح سے مشکل حالات میں افغانستان کا ساتھ دیا، دہشت گردوں کی فہرست افغان عبوری حکومت کو بھیجی گئی، پاکستان نے اب داخلی معاملات کو درست کرنے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ ملک میں بدامنی پھیلانے کا زیادہ ہاتھ غیر قانونی تارکین وطن کا ہے۔
نگران وزیراعظم نے کہا کہ غیر ملکیوں کو عزت کے ساتھ واپس جانے کے مواقع فراہم کیے، پرامید ہیں افغان حکومت بھی واپس جانے والوں کے لئے احسن اقدامات کرے گی۔ انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ گزشتہ 2 سال میں سرحد پار سے دہشت گردی کی وجہ سے 2 ہزار سے زائد پاکستانی شہید ہوئے، افغان عبوری حکومت کو یہ ادراک ہونا چاہیے کہ دونوں ریاستیں خود مختار ہیں۔ نگران وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان سے وزیر دفاع کی سربراہی میں اعلی سطح پر وفد افغان حکومت سے ملاقات کے لئے گیا جس میں آئی ایس آئی کے سربراہ بھی موجود تھے جبکہ اس سے قبل بھی رسمی اور غیر رسمی طریقے سے مختلف وفود بھی افغانستان جا چکے ہیں، اگر اس کے باوجود وہاں سے مثبت اشارے یا اقدامات نہ آئیں تو پاکستان بھی اپنے رویے پر نظر ثانی کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات پہلے سے بہتر ہوگئے ہیں، اس سے قبل افغان حکومت ہماری پالیسیوں یا ہم سے فوائد کو معمولی لیتی تھی۔ انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ میں خود پشتون ہوں، کسی بھی پاکستانی پشتون کو اس پالیسی کے تحت ٹارگٹ کرنا قابل قبول نہیں، واضح کردوں اگر کوئی شخص ان حرکات میں پایا گیا تو اسے سخت سزا دی جائے گی کیونکہ پشتون کا پاکستان میں اتنا ہی حق ہے جتنا ہے پنجابی، بلوچی، سندھی اور گلگتی کا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں نگران وزیراعظم نے کہا کہ اپنے ذہنوں سے نکال دیں پاکستان پر امریکا یا کسی بھی ملک کا کوئی دبا وہے، پاکستان کسی پر دبا ودیتا ہے اور نہ پاکستان کسی کا دباو لے گا، جیسے ہم مختلف ممالک سے درخواست کرتے ہیں ویسے ہی ہم سے درخواستیں کی جاتی ہیں، لہذا اسے دبا وکہنا درست نہیں۔ انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی دونوں ممالک کےحق میں ہے، البتہ ہم نے امریکا کو کئی بار کہا آپ تو خطے سے چلے جائیں گے لیکن پاکستان کو سامنا کرنا پڑے گا۔
غزہ کی صورتحال پر نگران وزیراعظم نے کہا کہ غزہ کے لئے جتنا کیا جائے اتنا کم ہے، ڈیڑھ ارب مسلمان ان کی امداد سے مطمئن نہیں، وہاں خواتین اور بچوں پر حملے ہو رہے ہیں، البتہ اس حوالے سے سعودی عرب کے ساتھ ایک سیشن کا انعقاد کیا جائے گا جس کا مقصد غزہ میں جنگ بندی اور وہاں خوارک، ادویات سمیت دیگر اشیائے ضروریہ پہنچانا ہے، اس کے بعد دیکھیں گے کہ مزید کیا ہونا چاہیے۔