چین

اصلاحات اور کھلے پن نے چین اور دنیا کو کامیاب بنایا ہے

بیجنگ (عکس آن لائن) یہ شاید ۱۹۷۹ کا موسم سرما تھا، جب میری عمر  تیرہ سال تھی۔ ایک دن، جب میں اپنی والدہ کے ساتھ خریداری کے لئے باہر جا رہا تھا، تو میں  نے میز پر ایک خوبصورت بوتل دیکھی، اور سوچا کہ یہ فیس کریم ہے جو میری بہن نے خریدی ہے، لہذا میں اور ماں  اسے اپنے چہرے پر لگا کر  باہر نکلے. آدھے راستے میں مجھے لگا کہ میرا چہرہ سخت اور کھنچتا جا رہا ہے اور میری والدہ نے کہا کہ وہ بھی ایسا ہی محسوس کر رہی  ہیں، اور جب ہم نے ایک دوسرے کو دیکھا تو پتہ چلا کہ ہمارے چہرے سفید تہہ سے ڈھکے ہوئے تھے، اور کچھ جگہوں پر  یہ سفید تہہ  خشک ہو کر  ہوا میں بکھر رہی تھی۔

ہم  جلدی سے گھر  واپس چلے ، بعد میں  پتہ چلا  کہ میری فیشن کا شوق رکھنے والی بہن  نے  یہ  تازہ ترین فیشل ماسک خریدا تھا جو  ہمارے چہروں پر موئسچرائزر کے طور پر استعمال ہوا   جس کے بارے میں ہم نے کبھی نہیں سنا۔یوں یہ اپنے اوپر بیتنے والا یہ واقعہ ایک  مذاق کے طور پر ہمیں آج بھی یاد ہے۔

چین میں سنہ 1978 ء میں اصلاحات اور کھلے پن کا آغاز تھا اور اس وقت چینیوں کا معیار زندگی بہت کم تھا، اگرچہ ہم بیجنگ جیسے چین کے سب سے ترقی یافتہ شہر میں رہتے تھے لیکن کم وسائل کی وجہ سے ہماری زندگی کی سب سے بڑی آسائش کھانے پینے کی اشیا اور کپٹروں کے حصول تک ہی محدود تھی ، یہ فیس ماسک جیسی بیوٹی پروڈکٹس لگژری اشیاء کے مترادف تھیں جو شاذ و نادر ہی دیکھنے کو ملتی تھیں۔

اس کے بعد اگلے 45 برسوں میں چین نے  بڑی تبدیلیوں کا مشاہدہ کیا ، آہستہ آہستہ ایک بند ملک سے عالمی معیشت کا اہم انجن بن گیا، چینیوں کی  زندگی میں  آہستہ آہستہ ٹی وی، واشنگ مشین، ریفریجریٹر، ایئر کنڈیشنر، کار، موبائل فون، انٹرنیٹ سمیت جدید طرز زندگی کی جھلکیاں نظر آنے لگیں، چینی بھی سیر و سیاحت کے لئے  بیرون ملک جانے لگے، دنیا کے کونے کونے میں  چینی لوگ  نظر آتے ہیں، جو  حقیقی دنیا دیکھنے سے لطف اندوز  ہو رہے ہیں۔ میں اب چہرے پر موئسچرائزر کے طور پر  فیس ماسک استعمال نہیں کر رہا ہوں، جبکہ  میری اسی سالہ والدہ  کبھی کبھار گھر پر  فیس ماسک لگا کر کہتی ہیں کہ یہ ابدی جوانی کے لئے  ہے۔

چین کی اصلاحات اور کھلے پن کو وسیع پیمانے پر معاصر دنیا میں سب سے اہم معاشی تجربات میں سے ایک سمجھا جاتا ہے ، جس نے دنیا کو تبدیل کردیا ہے اور ، زیادہ اہم بات یہ ہے کہ خود چین اور چینی لوگوں کو تبدیل کر دیا گیا ہے۔ 1978 میں چین کا فی کس جی ڈی پی صرف 156 امریکی ڈالر تھا اور چین کی 84 فیصد آبادی 1.25 امریکی ڈالر یومیہ سے بھی کم پر زندگی بسر کر رہی تھی جو بین الاقوامی معیار کی غربت کی لکیر سے نیچے ہے۔

2022 تک چین کا جی ڈی پی بڑھ کر 121 ٹریلین یوآن سے تجاوز کرچکا ہے، اس کی فی کس جی ڈی پی 12,000 امریکی ڈالر تک جا پہنچی ہے، اور اس کا مجموعی معاشی حجم  18 ٹریلین امریکی ڈالر تک پہنچ گیا ہے جو دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے، اور عالمی اقتصادی ترقی میں اس کا حصہ کئی سالوں تک 30 فیصد سے اوپر رہاہے!

اتنی بڑی تبدیلی نے چینی عوام کی شکل و صورت کو  بدل دیا ہے اور یہاں تک  کہ چینیوں کی سوچ کو بدل دیا  ہے۔ آج چینیوں کو کھانے پینے اور کپڑے پہننے کا کوئی مسئلہ نہیں رہا، لوگ زیادہ سے زیادہ تعلیم، طبی دیکھ بھال، ثقافت، کھیل اور دیگر عوامی خدمات  اور ساتھ ہی جدید طرز زندگی سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں ، چینی عوام زیادہ پراعتماداور  کھلے  ہو گئےہیں۔

میرا ماننا ہے کہ دنیا کے لیے چین کا سب سے بڑا تعاون اس مفروضے کو توڑنا ہے کہ جدید ترقی کا مغربی ماڈل ہی انسانی ترقی کا واحد آپشن ہے ۔چین نے دنیا کو ایک نیا معاشی ترقی کا ماڈل فراہم کیا ہے۔ چین نے کامیابی کے ساتھ سوشلسٹ نظام کو مارکیٹ معیشت کے ساتھ ضم کیا ہے اور چینی خصوصیات کے حامل سوشلسٹ مارکیٹ اکانومی سسٹم تشکیل دیا ہے ، جس نے چینی طرز کی جدیدیت  کے حصول کے لئے ایک ٹھوس بنیاد رکھی ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ چین کی اصلاحات اور کھلے پن کی کامیابی سماجی ترقی کے روایتی مغربی نظریے کی نفی ہے۔ چین نے نہ صرف ترقی کی ایک نئی راہ ہموار کی ہے بلکہ دنیا میں امن و استحکام بھی لایا ہے، اس دعوے کو توڑا ہے کہ ایک ابھرنے والا طاقتور  ملک  ضرور تسلط پسند ہوگا ۔ چین نے  اپنے اقدامات سے بین الاقوامی برادری میں حقیقی انصاف ، حقیقی انسانی حقوق اور انسانیت کی حقیقی  مشترکہ اقدار کی از سر نو وضاحت کی ہے۔

دنیا کے لیے اصلاحات اور کھلا پن چین کا سب سے بڑا اقدام ہے اور یہاں تک کہ مغرور مغربی ممالک بھی چین کی اصلاحات و کھلے پن کی تعریف کرنے سے نہیں ہچکچاتے۔ وال اسٹریٹ جرنل کا ماننا ہے کہ  چین کے رہنماؤں نے   چینی عوام کے ساتھ  گزشتہ تین دہائیوں کے دوران انسانی تاریخ کی سب سے شاندار معاشی اصلاحات کو انجام دیا ہے۔ نیو یارک ٹائمز نے تبصرہ کیا: “چین کی اصلاحات اور کھلے پن کی پالیسی انسانی تاریخ کا سب سے کامیاب معاشی ترقی کا تجربہ ہے. ”

چین اس طرح کے جائزے کا مستحق ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں