کراچی (عکس آن لائن)اسٹیٹ بینک نے نئی ”گورنر کی سالانہ رپورٹ 2021ـ22ئ” جاری کر دی جس کے مطابق مالی سال 22ء میں تخمینے سے بڑھ کر مہنگائی میں بیرونی اور ملکی عوامل کے امتزاج نے کردار ادا کیا۔ یہ بات بینک دولت پاکستان کی جاری کردہ گورنر کی سالانہ رپورٹ 2021ـ22ء میں کہی گئی۔ خاص طور پر توقع سے زیاد ملکی طلب اور غیرمتوقع مالیاتی توسیع کے ہمراہ عالمی اجناس کی قیمتوں میں توقع سے زیادہ اضافے اور زر مبادلہ کی شرح میں کمی ایک ایسے سال میں مہنگائی کو تحریک دینے والے اہم عوامل تھے جو دنیا بھر میں پالیسی سازوں کے لیے غیرمعمولی طور پر اتار چڑھاؤ کا حامل اور دشوار ثابت ہوا۔”گورنر کی سالانہ رپورٹ 2021ـ22ء ” جو اسٹیٹ بینک کی اس نوعیت کی پہلی رپورٹ ہے اسٹیٹ بینک آف پاکستان ایکٹ 1956ء (جنوری 2022ء تک ترمیم شدہ) کی شق 39 (1) کے تحت شائع کی گئی ہے جس کی رو سے گورنر کو بینک کے اہداف کے حصول، زری پالیسی کے طرز عمل، معیشت کی کیفیت اور مالی نظام کے بارے میں مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کو سالانہ رپورٹ پیش کرنی ہے۔
اس شق نیز ترمیم شدہ ایکٹ کی شق 4(B) میں مندرجہ اسٹیٹ بینک کے اہداف کے مطابق یہ رپورٹ چار الگ الگ ابواب میں منقسم ہے جو پاکستانی معیشت کی کیفیت اور مالی نظام؛ قیمتوں کے استحکام اور زری پالیسی کے طرز عمل؛ مالی استحکام اور حکومت کی معاشی پالیسیوں کی معاونت کے لیے کیے گئے اقدامات پر روشنی ڈالتے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ مالی سال 22ء کے دوران ملکی صارف اشاریہ قیمت مہنگائی(NCPI) 12.2 فیصد تک پہنچ گئی جو گذشتہ سال 8.9 فیصد رہی تھی، نیز وہ مالی سال 22ء کیلئے حکومت کے ہدف 8 فیصد سے اور خود اسٹیٹ بینک کے تخمینے 9 سے 11 فیصد کی رینج سے بھی آگے نکل گئی۔ چنانچہ مہنگائی قیمت میں استحکام کے مقصد سے دور رہی جسے حکومت نے 5 تا 7 فیصد کے وسط مدتی ہدف کی صورت میں سامنے رکھا تھا۔ تاہم رپورٹ میں یہ بات اجاگر کی گئی کہ پاکستان واحد ملک نہیں ہے جہاں مہنگائی سال کے آغاز میں کی جانے والی سرکاری پیش گوئیوں سے زائد رہی، عالمی اقتصادی ماحول ویسے بھی خاصا صبر آزما ہے جس کی علامت عالمی رسدی زنجیروں میں رکاوٹیں اور روس یوکرین کا تنازع ہے۔
ملکی طلب توقع سے زیادہ تیزی سے بڑھی، جس کا بڑا سبب مالی سال 22ء کے دوران غیر منصوبہ جاتی مالیاتی توسیع ہے، جبکہ سال گزنے کے ساتھ ساتھ اجناس کے عالمی نرخوں میں اضافے سے مہنگائی، بیرونی کھاتے اور روپے پر دبائو بڑھ گیا۔ بہرحال، کووڈ کی وبا سے عالمی نجات کی کیفیت غیر یقینی ہے جس کی بنا پر پالیسی اقدامات کے درست وقت کا تعین کرنا پیچیدہ ہوگیا ہے۔ اس سے قطع نظر، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسٹیٹ بینک نے مہنگائی کے دبائوکے مقابلے کے لیے مالی سال 22ء کی پہلی سہ ماہی سے اقدامات شروع کردیے تھے، جن میں یہ بات بھی شامل ہے کہ بدلتے ہوئے منظر نامے کے علاوہ مہنگائی، مالی استحکام، اور نمو کو لاحق خطرات کو متوازن رکھنے کے پیشِ نظر زری سختی کی رفتار سوچی سمجھی رکھی گئی۔مزید برآں زری پالیسی کمیٹی کے اجلاسوں کی تعداد بھی سال میں چھ سے بڑھا کر آٹھ کر دی گئی تاکہ تیزی سے بدلتی ہوئی صورتِ حال کے جواب میں زری پالیسی کی تشکیل زیادہ بہتر طریقے سے کی جائے۔ مالی سال 22ء کے دوران پالیسی ریٹ مجموعی طور پر 675 بی پی ایس بڑھایا گیا جبکہ ملکی طلب کو محدود کرنے کے لیے میکرو پروڈنشل ماحول کو بھی سخت کیا گیا۔مالی نظام کے استحکام میں کردار ادا کرنا بھی اسٹیٹ بینک کے مقاصد میں شامل ہے، اس تناظر میں رپورٹ میں بتایا گیا کہ اگرچہ مالی منڈیوں پر کچھ دباؤ تھا، جس سے مالی اثاثوں کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ اور دباؤ آیا، تاہم وہ بغیر کسی خاص رکاوٹ کے ہموار طور پر کام کرتی رہیں۔
ملک کا مجموعی مالی شعبہ دورانِ سال مستحکم اور لچک دار رہا کیونکہ مالی شعبے میں سب سے بڑے حصہ دار بینکاری شعبے کی شرحِ کفایتِ سرمایہ ملک کی ضوابطی ضروریات کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی معیارات سے بھی بلند رہی۔گورنر کی سالانہ رپورٹ مالی سال 22ء میں ان اقدامات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے جو اسٹیٹ بینک نے حکومت کی اقتصادی پالیسیوں کی معاونت کے لیے کیے تھے، اور جو معاشی ترقی کو فروغ دینے اور پیداواری وسائل کے بہتر استعمال کے اس کے تیسرے مقصد کو پورا کرتے تھے۔ بالخصوص، یہ رپورٹ ملک میں مالی شمولیت، مالی ترقی اور مالی لین دین کی دستاویزیت کو فروغ دینے کی غرض سے اسٹیٹ بینک کی فعال کوششوں کو اجاگر کرتی ہے۔ ان میں یہ اقدامات شامل ہیں: ترسیلاتِ زر میں اضافے کے لیے اور روشن ڈجیٹل اکاؤنٹ اسکیم اور دیگر اقدامات کی وساطت سے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے نئی سرمایہ کاریاں لانا؛ راست (Raast) کے استعمال سے فرد سے فرد کو فوری ادائیگیوں کے ذریعے ادائیگیوں کی ڈجیٹائزیشن؛ خواتین کی مالی شمولیت کو بہتر بنانے کے لیے ‘برابری پر بینکاری ‘ پالیسی کا آغاز؛ اور پاکستان میں ڈجیٹل بینکوں کے قیام کے لیے ڈجیٹل بینک فریم ورک کی آمد۔مستقبل کے تناظر میں رپورٹ منفی بیرونی اور ملکی پیشرفت کے مسلسل اثرات سے مستقبل قریب کے اہم چیلنجوں کو بیان کرتی ہے جو حالیہ سیلاب کی وجہ سے مزید بڑھ گئے ہیں۔ یہ چیلنج سست رفتار نمو اور مہنگائی اور بیرونی محاذ پر بلند دباؤ کی صورت میں ظاہر ہو رہے ہیں۔
مالی سال 23ء کے دوران ان چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے جن چیزوں کی ضرورت ہوگی ان میں محتاط زری اور مالیاتی پالیسیاں، غذائی قیمتوں کو کم کرنے کے لیے اقدامات، آئی ایم ایف پروگرام کو ٹریک پر رکھنے کو یقینی بنانا، اور زیرِ منصوبہ بیرونی رقوم کا بروقت حصول شامل ہیں۔ مجموعی درآمدی بل کو محدود رکھنیکے لیے لازم ہو گا کہ مطلوبہ مالیاتی یکجائی حاصل کی جائیاور توانائی کی درآمدات کم کرنے کے لیے سخت اقدامات کیے جائیں۔ وسط مدت کے دوران، ترقی کے اتار چڑھاؤ کی تکرار سے بچنے اور معیشت کی لچک کو بڑھانے کے لیے جو ساختی اصلاحات ناگزیر ہیں ان کا تعلق پیداواری صلاحیت، برآمدی مسابقت، اور ملکی بچتوں اور سرمایہ کاری میں اضافے سے ہے۔